سیاحتی مقامات تو بہت لیکن سیاحت کی پلاننگ کہاں ہے؟

اگر غیر ملکی سیاحوں کی توجہ حاصل کرنی ہے تو دلکش مناظر کے مقامات پر اچھی کوالٹی کی کیمپنگ سائٹس کی ضرورت ہے۔

فیری میڈوز کا حسن اس کے دشوار گزار ہونے میں ہے، لیکن بنیادی سہولیات پھر بھی درکار ہیں (Tahsin Anwar Ali - CC BY-SA 3.0)

کرونا کی وبا کی وجہ سے دنیا بھر میں سیاحت میں کمی واقع ہوئی ہے اور کمی بھی تھوڑی سی نہیں بہت زیادہ۔ اقوام متحدہ کی تنظیم برائے عالمی سیاحت کے مطابق پاکستان میں سیاحت میں گذشتہ سال 2019 کے مقابلے میں 72 فیصد کمی آئی ہے۔

دیگر ممالک کی طرح پاکستان کو بھی سیاحت میں کمی کا سامنا ہے۔ پاکستان میں 2019 کے مقابلے میں گذشتہ سال سیاحت میں 38 فیصد کمی آئی ہے۔ پاکستان جہاں پر غیر ملکی سیاحوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا وہ کووڈ 19 کی وجہ سے تھم گیا ہے لیکن عالمی سطح پر کہا جا رہا ہے کہ اس سال سیاحت ایک بار پھر زور پکڑے گی اور امید ہے کہ پاکستان میں ایک بار پھر غیر ملکی سیاح آنا شروع ہو جائیں گے۔

اندرونی اور بیرونی سیاحت کسی بھی ملک کے لیے آمدن کا ایک بڑا ذریعہ ہوتا ہے اور یہ ہی حال پاکستان کا بھی ہے۔ موجودہ حکومت نے سیاحت پر توجہ مرکوز کی اور ایک طرف جہاں سڑکوں کے نیٹ ورک کو توسیع دی گئی تو دوسری جانب نئے مقامات کی نشاندہی کے ساتھ دیگر کئی اہم اقدامات بھی کیے۔

لیکن اب بھی بہت کچھ ہونا باقی ہے۔ یہ بات صحیح ہے کہ اس میں وقت درکار ہوتا ہے لیکن کچھ اقدامات ایسے بھی ہیں جن میں وقت سے زیادہ قوت ارادی کی ضرورت ہوتی ہے۔

ایک لہر آئی تھی صوبہ سندھ میں جب موہن جو دڑو کو بے انتہا پروموٹ کیا جا رہا تھا اور اس حوالے سے کئی تقریبات بھی رکھی گئیں لیکن کچھ عرصے بعد اس کو ایسے چھوڑ دیا گیا جیسے اس لباس کو پہننا ترک کر دیا جاتا ہے جو اب فیشن میں نہ ہو۔

کسی نے موہن جو دڑو کے آس پاس ہوٹل یا رہنے کی مناسب جگہ بنانے کے بارے میں نہیں سوچا جہاں سیاح نہ صرف ملک بھر سے بلکہ دنیا بھر سے آئیں اور ٹھہریں۔ ایسی جگہ جہاں سے سیاح صبح  وادی سندھ کی قدیم تہذیب کے قریب اٹھے۔ یہ صرف سندھ کی بات نہیں ہے بلکہ خیبر پختونخوا میں تخت بائی اور پنجاب میں ہڑپا اور کئی دیگر مقامات کی بھی بات ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک جانب مذہبی سیاحت کو فروغ دینے کے بارے میں بات کی جاتی ہے اور دوسری جانب اس کو فروغ دینے کے حوالے سے خاطر خواہ قدم نہیں اٹھائے جاتے۔

چند سال قبل میرا فیری میڈوز جانے کا اتفاق ہوا۔ ایک شام وہاں کاٹیج ہوٹل چلانے والے کے پاس بیٹھے نانگا پربت کے نظارے کا لطف اٹھایا جا رہا تھا اور بات چیت چل رہی تھی۔

مالک نے مجھ سے سوال کیا، ’کیا آپ چاہیں گے کہ اس پتھریلے راستے جس پر یا تو آپ پیدل چل سکتے ہیں یا پھر جیپ میں سفر کریں، اگر اس کی جگہ ایک اچھی سڑک بن جائے جس پر عام گاڑیاں بھی آ جا سکیں؟‘

میں حیرانی سے اس کی جانب دیکھنے لگا اور کہا، ’مجھ سمیت کون یہ چاہے گا کہ ایسا ہو؟ ہر جگہ کی ایک اپنی منفرد بات ہوتی ہے اور فیری میڈوز کا اصل لطف ہمارے سامنے اس کِلر ماؤنٹین نانگا پربت کے علاوہ یہ کچا راستہ ہے جس کا پرخطر سفر ہی اس کو منفرد بناتا ہے۔‘

بات یہ تھی کہ اس وقت کی حکومت نے یہ تجویز کیا تھا کہ اس پتھریلے راستے کو ایک باقاعدہ سڑک کی شکل دی جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ سیاح آ سکیں۔ جناب سیاح اس وقت زیادہ آئیں گے جب ایک باقاعدہ حکمت عملی کے تحت فیری میڈوز میں ہوٹل یا کاٹیجز کی تعمیر کی جائے جن میں بنیادی سہولیات مہیا ہوں۔

بیال کیمپ جیسی خوبصورت جگہ پر کسی قسم کی رہائش کا انتظام نہیں ہے۔ کیمپ لگانے سے رہائش کا انتظام تو کیا جا سکتا ہے لیکن اس کے ساتھ جڑی اور چیزیں جیسے کہ مناسب واش رومز وغیرہ کا بندوبست کیسے ہو۔

یہی حال سوات سے آگے علاقوں کالام، میاندم وغیرہ کا ہے۔ ہوٹل تو تعمیر ہو رہے ہیں لیکن وہ عام افراد کی پہنچ سے باہر ہوں گے۔ اگر غیر ملکی سیاحوں کی توجہ حاصل کرنی ہے تو دلکش مناظر کے مقامات پر اچھی کوالٹی کی کیمپنگ سائٹس کی ضرورت ہے۔ غیر ملکی سیاح ہم پاکستانیوں کی طرح نہیں ہیں جن میں اب بھی شاہانہ عادات ہیں کہ جہاں جائیں وہاں ایک اچھا کمرہ ہو، اور باقاعدہ واش روم ہو۔

کچھ عرصہ قبل ہنزہ میں ناروے سے آئے ایک جوڑے سے ملاقات ہوئی۔ شوہر لکھاری تھا اور بیوی فیشن ڈیزائنر۔ وہ ایک نچلے درجے کے ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے لیکن ان کے ہاتھ میں جدید ترین جی پی ایس آلہ تھا۔ ان کا مقصد گلگت بلتستان کی خوبصورتی دیکھنا تھا اور اس کے لیے وہ ایک سستے سے ہوٹل میں ٹھہرے، پھر وہ راکاپوشی بیس کیمپ کے لیے روانہ ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہوٹل میں تو صرف رات کو سونے کے لیے ہی جانا ہوتا ہے اور اگر یہاں پر کیمپنگ کی اچھی سائٹ ہوتی تو وہ اس میں ضرور ٹھہرتے۔

پاکستان میں سیاحت کی مزید جگہوں کو ڈیولپ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ آخر سوات میں صرف مالم جبہ ہی نہیں ہے بلکہ بہت سے ایسے خوبصورت اور دلکش مقامات ہیں جہاں انسان جا کر کچھ دیر کے لیے ہوش کھو بیٹھتا ہے۔

مقامات تو پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں بھی ہیں لیکن ان کو فروغ دینے کی ضرورت ہے اور فروغ اسی وقت دیا جا سکتا ہے جب ان مقامات کو حکمت عملی کے تحت ڈیویلپ کیا جائے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ