مری کے علاوہ کن سیاحتی مقامات کا رخ کیا جا سکتا ہے؟

وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید نے مری میں انسانوں جانوں کی ضیاع کے بعد میڈیا سے گفتگو میں کہا تھا کہ پاکستان میں ’دو تین مری‘ اور بھی ہونے چاہیے اور اسی طرح ’ دو تین نتھیا گلی‘ بھی بنانے چاہیں۔

خیبر پختونخوا کے ضلع دیر پائین کے علاقے چکدرہ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقعہ لڑم ٹاپ صوبے کے پر فضا مقامات میں سے ایک ہے اور خصوصاً سردی کے موسم میں وہاں پر کئی فٹ برف پڑتی ہے (تصویر: غلام اسحاق خان)

مری اور گلیات کے سیاحتی مقامات پر برف باری کی وجہ سے سیاحوں کی اموات اور پھنسنے کے واقعات کے بعد سوشل میڈیا پر بحث شروع ہوگئی ہے کہ ان کے علاوہ پاکستان میں ایسے کون سے سیاحتی مقامات ہیں، جہاں بہتر سہولیات میسر ہوں۔

وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید بھی مری میں اموات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں کہہ چکے ہیں کہ پاکستان میں ’دو تین مری‘ اور بھی ہونے چاہییں اور اسی طرح ’ دو تین نتھیا گلی‘ بھی بنائے جانے چاہییں۔

انڈپینڈنٹ اردو نے چند ایسے ہی سیاحتی مقامات کے بارے میں محکمہ سیاحت کے اہلکاروں اور عام لوگوں سے بات کی ہے، جہاں اسلام آباد سے مری اور نتھیا گلی کے مقابلے میں پہنچنا آسان ہے۔

اس رپورٹ میں گلگت بلتستان کے سیاحتی مقامات کا ذکر نہیں کیا جارہا کیونکہ گلگت سیاحوں کے لیے کچھ دور تصور کیا جاتا ہے۔

لڑم (بچھو) ٹاپ، دیر

خیبر پختونخوا کے ضلع دیر پائین کے علاقے چکدرہ سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع لڑم ٹاپ صوبے کے پر فضا مقامات میں سے ایک ہے اور خصوصاً سردی کے موسم میں وہاں کئی فٹ برف پڑتی ہے۔ یہ سیاحتی مقام اسلام آباد سے تقریباً چار گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے، جہاں پر چھوٹی بڑی گاڑیاں جا سکتی ہے اور یہ سطح سمندر سے تقریباً آٹھ ہزار 500 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔

محکمہ سیاحت کے ترجمان سعد بن اویس نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ برف باری کے دنوں میں فور بائی فور گاڑی آسانی سے وہاں تک جاسکتی ہے لیکن برف زیادہ تر ٹاپ پر پہنچ کر پڑتی ہے اور سڑک عموماً صاف رہتی ہے۔

دیر کے سیاحتی مقامات کے حوالے سے ویب سائٹ ’دیر ٹوررازم ڈاٹ کام‘ کے مطابق سردی کے علاوہ لڑم ٹاپ گرمی میں بھی ایک بہترین سیاحتی مقام ہے جہاں پر ضلع دیر سمیت مردان، چارسدہ، صوابی اور قریبی اضلاع سے سیاح آتے ہیں۔

اسی ویب سائٹ کے مطابق لڑم ٹاپ تک مختلف راستوں سے جایا جا سکتا ہے لیکن اس میں سب سے آسان راستہ چکدرہ سے کچھ  فاصلے پر آگے اوچ کا مقام ہے، جہاں سے سڑک لڑم ٹاپ تک جاتی ہے۔

ضلع دیر کے رہائشی پامیر افغان، جو کئی مرتبہ لڑم ٹاپ پر گئے ہیں، نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ لڑم ٹاپ ایک اچھا سیاحتی مقام ہے لیکن وہاں پانی کی غیرموجودگی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔

پامیر نے بتایا: ’لڑم میں پانی بالکل نہیں ہے۔ وہاں کے رہائشی بارانی پانی جمع کرکے ضروریات پوری کرتے ہیں۔ پانی کے علاوہ رہائش کا بھی  مسئلہ ہے کیونکہ کچھ نجی ریسٹ ہاؤسز بنائے گئے ہیں لیکن وہ عام پبلک کے لیے نہیں ہے بلکہ کسی ریفرنس کے ذریعے ہی وہاں پر ٹھہرا جاسکتا ہے۔‘

سڑک کے حوالے سے پامیر نے بتایا کہ روڈ خراب ہے لیکن موٹر کار بھی وہاں جا سکتی ہے، تاہم ٹاپ تک پہنچے سے تھوڑا نیچے سڑک بالکل خراب ہے اور وہاں پر گاڑی کھڑی کرکے سیاح اوپر جا سکتے ہیں۔ وہاں دو تین چھوٹے ہوٹلز بھی ٹاپ سے تھوڑے فاصلے پر ہیں، لیکن بہتر یہی ہوگا کہ سیاح اپنے ساتھ خوراک نیچے بازار سے لے کر اوپر جائیں۔

پامیر کے مطابق لڑم ٹاپ مری کی طرح بہتر سیاحتی مقام بن سکتا ہے اگر حکومت وہاں پر سہولیات فراہم کرے کیونکہ لڑم میں مری کی طرح برف پڑتی ہے اور سیاح اس سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔

شاہی بن شاہی، دیر

ضلع دیر ہی کی تحصیل ثمر باغ میں واقع شاہی بن شاہی سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے جہاں پر مقامی افراد بڑی تعداد میں سردی اور گرمی دونوں موسموں میں جاتے ہیں اور یہ مقام سطح سمندر سے سات ہزار سے زائد کی بلندی پر واقع ہے۔

یہ سیاحتی مقام پاک افغان بارڈر پر واقع ہے اور اس کی حدود افغانستان کے صوبہ کنڑ سے ملتی ہے۔ شاہی عام افراد کے لیے کھلا رہتا ہے جب کہ روڈ  خستہ حالی کا شکار ہے لیکن تمام چھوٹی بڑی گاڑیاں وہاں تک جا سکتی ہے۔  اسی مقام سے سیاح افغانستان کا  بارڈر بھی دیکھ سکتے ہیں کیونکہ اس مقام سے بارڈر تقریباً تین کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔

حال ہی میں شاہی جانے والے سیاح عباداللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ روڈ اتنا اچھا نہیں ہے لیکن گاڑی کا انجن بہتر ہو تو وہ اوپر تک جا سکتی ہے۔ عباد نے بتایا کہ پانی کا مسئلہ نہیں ہے اور چھوٹے ہوٹلز بھی اسی مقام پر موجود ہیں جہاں پر سیاح کھانا کھا سکتے ہیں۔

عباد نے بتایا: ’بہترین سیاحتی مقام ہے لیکن سہولیات مزید دینے کی ضررورت ہیں۔ ایک تو رہائش کے لیے ہوٹلز اور روڈ کارپٹڈ بنانے کی ضرورت ہے۔‘ سردیوں میں عباد کے مطابق خوب برف پڑتی ہے لیکن ٹاپ تک پہنچنے سے چند فاصلے پر نیچے گاڑی کرنی ہوگی اور پھر ہائک کر کے اوپر جانا پڑتا ہے۔

گبین جبہ، سوات

یوں تو سوات میں کالام، مالم جبہ، مرغزار جیسے سیاحتی مقامات موجود ہیں جہاں پر لاکھوں کی تعداد میں سیاح جاتے ہیں لیکن گبین جبہ کو کچھ عرصہ پہلے ایکسپلور کیا گیا ہے جو سطح سمندر سے آٹھ ہزار سے زائد فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔

اس کو ایکسپلور کرنے میں خیبر پختونخوا حکومت کا بھی کردار ہے کیونکہ گزشتہ سال صوبائی حکومت نے اسی مقام پر ایک بڑا ’سنو فیسٹول‘ منعقد کیا تھا جہاں پر ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی تھی۔

گبین جبہ سوات سے تقریباً ایک دو گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے جہاں پر سردی میں چار سے پانچ فٹ تک برف پڑتی ہے۔ گبین جبہ کی طرف جانے والا سڑک کچھ فاصلے تک تو ٹھیک ہے لیکن اوپر بہت خستہ حالی کا شکار ہے۔

گبین جبہ ٹاپ تک گاڑی نہیں جا سکتی ہے لیکن سیاح ہائک کرکے اوپر جا سکتے ہیں۔

گبین جبہ جانے والے راستے پر آپ کو کھانے کے لیے ریسٹورنٹ اور رہائش کے لیے کمرے بھی مل سکتے ہیں تاہم اوپر ٹاپ تک نہ ہوٹل ہے اور نہ وہاں پر کھانے کا کوئی بندوبست موجود ہے۔

تاہم گبین جبہ ٹاپ سے تھوڑے فاصلے پر صوبائی حکومت کی جانب سے کیمپنگ پاڈز لگائے گئے ہے جہاں پر سیاح رات گزار سکتے ہے تاہم سردی میں زیادہ برف پڑنے کی وجہ سے یہ پاڈز بند رہتے  ہیں لیکن گرمیوں میں سیاح وہاں جا کر رات گزار سکتے ہیں۔ محکمہ سیاحت کے ترجمان سعد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ  پاڈز جہاں پر ہیں، وہاں گرمی میں بھی تھوڑی بہت برف پڑتی ہے  اور سردیوں میں مکمل برف سے بھرا رہتا ہے، تو اس کوکھلا رکھنا مشکل ہوتا ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سعد نے بتایا کہ گبین جبہ میں دو بیڈز اور چار بیڈز کے پاڈز لگائے گئے ہیں اور دو بیڈز کا فی رات کرایہ تین ہزار اورچار بیڈز کا کرایہ پانچ ہزار روپے ہے اور پاڈز کے اندر تمام تر سہولیات مہیا کی گئیں ہیں، جب کہ پاڈز کے ساتھ کچن بھی بنائےگئے ہیں جہاں پر سیاح خود بھی اور وہاں پر پاڈز انتظامیہ کی طرف سے باورچی بھی مہیا کیا گیا ہے اور سیاح ان سے بھی کھانا پکا سکتے ہیں۔

مانکیال چوکیل میڈوز، سوات

مانکیال میں واقع چوکیل سوات کی بڑی چوٹیوں میں سے  ایک ہے اور صوبائی حکومت کا اب ارادہ ہے کہ اس مقام کو مزید ایکسپلور کیا جا سکے۔

اسی حوالے سے صوبائی محکمہ سیاحت نے دبئی بزنس ایکسپو میں ’سمارا گروپ ‘ نے اس مقام کو تعمیر کرنے کے لیے محکمہ سیاحت سے مفاہتی یاداشت پر دستخط بھی کی ہے۔

شیرین زادہ  سوات سے تعلق رکھنے والے صحافی ہیں اور سیاحتی مقامات کی رپورٹنگ کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے انڈپیڈنٹ اردو کو بتایا کہ مانکیال ضلع سوات کا ایک تحصیل ہے جہاں پر’چوکیل میڈوز‘ کے نام سے ایک سیاحتی مقام موجود ہے جو ایک بہترین سپاٹ بن سکتا ہے اگر سہولیات فراہم کی جائیں۔

شیرین زادہ نے بتایا کہ یہ مقام سطح سمندر سے تقریبا ایک ہزار کلومیٹر کی بلندی پر واقع ہے لیکن ٹاپ تک گاڑی نہیں جا سکتی ۔ انھوں نے بتایا: ’مانکیال تک پہنچنے کے بعد آپ کو دو گھنٹے جیپ میں جانا پڑے گا اور اوپر جانے کے لیے تین گھںتے پیدل جانا پڑتا ہے کیونکہ روڈ موجود  نہیں ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ چوکیل میڈوز گرمی میں عام لوگوں کے لیے بہترین جگہ ہے لیکن سردی میں بہت زیادہ برف پڑنے سے عام لوگوں کے لیے تھوڑا اسخت ہوتا ہے ، تاہم جب روڈ ارو انفراسٹکچر بنایا جائے تو پھر تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

مہابنڈ، بونیر

خیبر پختونخوا کے ضلع بونیرمیں واقع مہابنڈ بھی اچھے سیاحتی مقامات میں سے ایک ہے لیکن سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے سیاح زیادہ تر اس جگہ جانے سے کتراتے ہیں۔ ضلع بونیر سے تعلق رکھنے والے صحافی انور زیب نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مہابنڈ  ایک بہترین سیاحتی مقام بن سکتا ہے اگر اس کو بہتر کیا جائے۔

انھوں نے بتایا کہ صوبائی حکومت کی جانب سےوہاں پر سیاحوں کی رہائش کے لیے کیمپنگ پاڈز بھی لگائے گئے ہے لیکن روڈ موٹر کار کے لیے اتنا اچھا نہیں لیکن فو ربائی فور گاڑی آسانی سے جا سکتی ہے۔

انھوں نے بتایا: ’برف باری مری  سے زیادہ پڑتی ہے اور خوبصورتی اس بنا پر مری سے زیادہ ہے کہ مری سے زیادہ بلندی پر واقع  ہے لیکن حکومتی توجہ کی ضرورت ہے کہ اس مقام کو ڈولپ کرے ۔‘

’سندھ کا مری‘  گورکھ ہل سٹیشن

سندھ یا کراچی کا نام سن کر آپ کا ذہن سمندرکے کنارے جانے اور وہاں انجوائی کرنے کی طرف جاسکتا ہے لیکن سندھ میں ایک ایسی جگہ بھی موجود ہے جہاں پر آپ  سردی میں برف باری سے لطف اندوز ہو سکتے ہے جس کو ’گورکھ ہل ‘ کہا جاتا ہے اور  اس کو ’سندھ کا مری‘ بھی کہا جاتا ہے۔

مری، ملم جبہ یا کالام جانے کے لیے کراچی والے ہر وقت ترستے ہیں لیکن   سندھ والے گورکھ ہل سٹیشن جا کر برف  باری انجوائی کر سکتے ہیں۔ گورکھ ہل سندھ کے دادو شہر کی کرتار پہاڑی پر واقع ہے جو سطح سمندر سے پانچ چھ سو فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔

یہ ہل سٹیشن کراچی سے تقریبا آٹھ گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے اور ہزاروں کی تعداد میں سیاح وہاں کا رخ کرتے ہے۔ دادو سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکن ماشوقی برمان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کورکھ ہل سٹیشن پر پہنچنے کے لیے فور بائی فور گاڑی ہونا ضروری ہے جوواہی پاندہی سے آسانی سے مل جاتی ہیں اور اس مقام پر پارکنگ کی سہولت موجود ہے جو فی گاڑی 200 روپے چارج کرتے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ واہی پاندہی سے 35 کلومیٹر کے بعد ایک سٹاپ آتا ہے جسے 35 سٹاپ کہا جاتا ہے، جہاں سیاحوں کی سہولت کے لیے ایک ہوٹل بنا ہوا ہے اور وہاں واش روم کی سہولت بھی موجود ہے۔

ماشوقی نے بتایا: ’سردیوں  میں درجہ حرارت منفی چھ  ڈگری سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے اور ہر ہفتے  کی رات وہاں پر فنکاروں کی ایک محفل سجتی ہے جس سے تمام سیاح لطف اندوز ہوتے ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان