’باہر والے کاروباری لوگوں نے فائدہ اٹھایا، مری والے ایسے نہیں‘

سوشل میڈیا پر بےجا تنقید اور ٹرینڈز، مگر مری کے لوگوں کا موقف بھی تو سن لینا چاہیے۔

مری سانحہ جس محل وقوع پر پیش آیا اس کو کلڈنہ کہا جاتا ہے، جو کہ ایک سنگل شاہراہ ہے،جس کا ایک حصہ آباد اور دوسرا غیر آباد جنگلات پر محیط ہے۔ سیاحوں کی گاڑیاں سات جنوری کو جمعہ کی شام اس وقت ٹریفک میں پھنس گئیں جب یک طرفہ شاہراہ پر آمنے سامنے سے آنے والی گاڑیاں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش میں تھیں (تصویر: خالد عباسی، رہائشی کلڈنہ)

مری میں سات جنوری کو پیش آنے والے سانحے کے بعد عوام میں شدید غم وغصے کی ایک لہر اٹھی، جس کے نتیجے میں نہ صرف حکومت بلکہ ‘مری کے لوگوں‘ کو بھی یکساں قصوروار ٹھرایا گیا، مگر اس سب میں مری کے رہائشی کیا موقف رکھتے ہیں وہ کم ہی منظر عام پر دیکھنے میں آیا۔

سوشل میڈیا پر جتنی لعن طعن کی گئی اور جتنے نفرت انگیز جملے کہے گئے اس دوران کسی نے مری والوں کا موقف سننا گوارا ہی نہیں کیا، بلکہ احتجاج کے طور پر سوشل میڈیا پر ٹرینڈز بھی چلائے جارہے ہیں، جیسے کہ#بائیکاٹ_مری  #مری_کے_بےحس_لوگ وغیرہ، جس کے اندر صارفین اپنی سمجھ اور توفیق کے مطابق لکھتے جارہے ہیں۔

اس تنقید کے دوران تصویر کا دوسرا رخ ایک ایسی ویڈیو کے ذریعے سامنے آیا، جس میں مری کے کچھ مقامی افراد کو سامان ہاتھ میں لیے برف میں پھنسے ہوئے سیاحوں کی مدد کے لیے پہنچتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔

ان ہی میں سے شامل ایک نوجوان زید آکاش بھی ہے، جنہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو سات جنوری کی روداد سناتے ہوئے کہا کہ کس طرح ان کے علاقے میں یہ خبر بجلی کی طرح پھیلی اور مسجد کے امام قاری واجد نے سب کو بتا دیا کہ سیاح پھنسے ہوئے ہیں اور مدد کے لیے نکلیں۔

’میرا تعلق بھوربن سے نیچے دیول کے علاقے سے ہے۔ دیول اور مری روات کے پچاس ،ساٹھ لوگوں نے چندہ اکھٹا کرکے ایک جنرل سٹور سے خشک میوہ، بسکٹ، کھجور، کیک، پانی اور دیگر سامان ضرورت خریدا، اور ایک قافلے کی صورت ہم روانہ ہوئے۔ کلڈنہ تقریباً پندرہ کلومیٹر دور تھا، جو ہم نے برف میں پیدل طے کیا۔‘

زید آکاش نے بتایا کہ اسی طرح ہر سال مری میں برفباری کے دوران جب سڑکوں پر برف صاف کرنے والی مشینیں نظر نہیں آتیں تو علاقائی لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ سیاحوں کی گاڑیاں پھنس گئی ہوں گی اور پھر وہ مدد کے لیے ازخود نکل پڑتے ہیں۔

 انہوں نے کہا: ’مری کے لوگوں کے لیے جو الفاظ استعمال کیے جارہے ہیں اس سے انہیں دلی دکھ پہنچا ہے، اوراس سے ان لوگوں کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے جنہوں نے گرم لحافوں سے اٹھ کر شدید ٹھنڈ میں سیاحوں کو نہ صرف اپنے گھروں میں جگہ دی بلکہ ان کے کھانے پینے کا انتظام بھی کیا۔

‘مری والوں پر چوری اور لوٹ مار کا الزام لگانے سے دلی دکھ ہوا ہے۔ دراصل تنقید کرنے والوں کو سمجھنا چاہیے کہ مری میں تقریباً 80 فیصد باہر سے آئے ہوئے کاروباری لوگ ہیں۔ ہوسکتا ہے انہوں نے موقع سے فائدہ اٹھایا ہوا ہو لیکن یہ ہمارا طور اور شیوہ نہیں ہے۔‘

مری سانحہ جس محل وقوع پر پیش آیا اس کو کلڈنہ کہا جاتا ہے، جو کہ ایک سنگل شاہراہ ہے،جس کا ایک حصہ آباد اور دوسرا غیر آباد جنگلات پر محیط ہے۔ سیاحوں کی گاڑیاں سات جنوری کو جمعہ کی شام اس وقت ٹریفک میں پھنس گئیں جب یک طرفہ شاہراہ پر آمنے سامنے سے آنے والی گاڑیاں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش میں تھیں۔

کلڈنہ چوک پر آباد ’زینوا‘ ہاؤسنگ سوسائٹی کے مینیجر خالد عباسی جو کہ بنیادی طور پر مری کے رہائشی ہیں،اور انہوں نے نہ صرف دس سیاحوں کو اپنے گھر میں جگہ دی بلکہ سانحے میں مرنے والے افراد کی لاشیں تک اٹھائیں۔

خالد عباسی نے انڈپینڈنٹ اردو کو جمعے کی شام کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا،

‘ایک عجیب بدنظمی پھیل گئی تھی۔ میں شام گئے تک یہ منظر دیکھتا رہا۔ کچھ رات نو بجے کے قریب برف کا طوفان آیا، بجلی بھی نہیں تھی۔ میں رات بھر یہی سوچتا رہا کہ اس طوفانی رات میں سیاحوں پر کیا بیت رہی ہوگی۔ صبح مارے تجسس کے باہر نکلا۔ تو کلڈنہ چوک پر بعض افراد کے جاں بحق ہونے کی اطلاع ملی۔ میں تین، چار لوگ ساتھ لے کر بھاگم بھاگ موقع پر پہنچا۔ آرمی اور ریسکیو والے پہنچ چکے تھے۔ ایک مہران گاڑی سے بارہ سالہ بچی اور مزید چار لوگوں کو ہم نے نکالا۔ تمام ڈیڈ باڈیز پاس واقع  آرمی لاجسٹک سکول میں رکھی گئیں اور پھر وہاں سے اپنے علاقوں میں پہنچائی گئیں۔‘

خالد عباسی نے بتایا کہ مرنے والوں کو جاننے والا موقع پر کوئی موجود نہیں تھا، لہذا کوئی رونے دھونے والا بھی نہیں رہا تھا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ جو اموات واقع ہوئیں وہ آبادی سے دور جنگل کے قریب پیش آئیں۔

’آبادی والے علاقے میں پھنسے ہوئے لوگوں کو مقامی لوگ یا تو اپنے گھروں اور یا ہوٹلوں میں لے گئے تھے۔ میرے پاس دس لوگوں کی گنجائش تھی۔ کئی گھروں میں تو اب بھی مہمان ٹھرے ہوئے ہیں۔‘

خالد عباسی نے کہا: ’فرشتہ کسی کو نہیں کہا جاسکتا تاہم انہوں نے کہا کہ مری کے لوگ لوٹنے والوں میں سے نہیں ہیں۔‘

جہاں ایک جانب حکومت پر سخت تنقید جاری ہے وہیں ہوٹل والوں اور دکانداروں کے حوالے سے کہا جارہا ہے کہ انہوں نے ایک انڈے کی قیمت پانچ سو روپے اور ایک کمرے کا کرایہ چالیس سے پچاس ہزار تک رکھا۔ علاوہ ازیں، چھوٹی گاڑی کو دھکا دینے کے لیے پندرہ سو اور بڑی گاڑی کو دھکا دینے کے لیے تین ہزار تک وصول کیے گئے۔

تاہم مری مال روڈ پر واقع ’ڈائمنڈ ہوٹل‘ کے منتظم جبران اکبر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اگر ایسا کچھ ہوا ہے تو اس کو ثبوت کے ساتھ متعلقہ ہوٹل کا نام لے کر بتایا جائے تاکہ اس کے خلاف کارروائی ہوسکے۔

انہوں نے کہا: ’ان کے ہوٹل نے چھ سے نو ہزار روپے کرایہ وصول کیا، جو کہ عام حالات میں وصول کی جانے والی رقم ہے۔ جو لوگ اس ہوٹل میں ٹھرے ہیں وہ خود اس کی گواہی دیں گے۔ بلکہ جن کے پاس پیسے نہیں تھے ان سے ہم نے ایک پیسہ بھی نہیں لیا۔‘

دوسری جانب، کچھ خبریں ایسی بھی ہیں کہ ایک ہوٹل ’موو اینڈ پک‘ چوبیس گھنٹے کے قیام کے پچاس ہزار لے رہے تھے، جس کے لیے ایک خاتون کو اپنے زیور ہوٹل انتظامیہ کے پاس گروی رکھوانے پڑے، کیونکہ ان کے پاس چالیس ہزار کی رقم نہیں تھی۔

جب اس حوالے سے متعلقہ ہوٹل کے ریزرویشن مینیجر احمد سے بات ہوئی تو انہوں نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایسا کچھ ہوا ہے تو اس کا ثبوت پیش کیا جائے۔

ان کا کہنا تھا: ’اگر ایسی کوئی بات ہوتی تومیرے علم میں ضرور ہوتی۔ دراصل سوشل میڈیا پر زیادہ تر جھوٹ بولا جاتا ہے۔ حالانکہ ہوٹل سے جب کوئی چیک آؤٹ کرتا ہے تو ان کو ایک انوائس بھی دی جاتی ہے۔ ہمارے ڈیلیکس کمرے کا ریٹ آٹھ ہزار ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ جو ریٹ بتایا جارہا ہے وہ کسی فائیوسٹار یا لگژری ہوٹل کی قیمت ہے جو کہ انہوں نے آج تک کسی کسٹمر سے نہیں لی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان