گلیات میں مری سے ’زیادہ‘ برفباری کے باوجود مسئلہ کیوں نہیں بنا؟

مری اور ایبٹ آباد کے درمیان 50 سے 80 کلومیٹر پر پھیلا علاقہ جس میں نتھیا گلی، باڑہ گلی، گھوڑا گلی، بھوربن اور دیگر علاقے شامل ہیں، ’گلیات‘ کہلاتا ہے اور یہ خیبر پختونخوا انتظامیہ کے دائرہ کار میں آتا ہے جب کہ مری صوبہ پنجاب میں واقع ہے۔

ڈی پی او ایبٹ اباد کے مطابق گلیات میں تقریباً سات فٹ برف پڑی (کے پی ٹوورازم اینڈ کلچر اتھارٹی)

پاکستان سیاحتی مقام مری اور اس کے ملحقہ علاقوں میں گذشتہ دو دنوں کے دوران  شدید برفباری کے بعد انتظامی نوعیت کے مسائل پیدا ہوئے جن کی وجہ سے اب تک 22 ہلاکتیں رپورٹ ہو چکی ہیں جو برفباری کے باعث طویل عرصے تک سڑکوں پر اپنی گاڑیوں میں ہی پھنسے رہے۔

صوبہ خیبر پختونخوا میں واقع سیاحتی مقام ’گلیات‘ میں مری سے ’زیادہ‘ برفباری ہوئی،  لطف اندوز ہونے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں سیاحوں نے ان علاقوں کا بھی رخ کیا، جس کے بعد ہوٹلوں میں گنجائش ختم ہوئی اور گاڑیوں کی پارکنگ کے لیے جگہ نہ رہی، تاہم اس صورتحال کے باوجود حالات قابو میں رہے اور کوئی حادثہ رپورٹ نہیں ہوا۔

ڈی پی او ایبٹ اباد کے مطابق گلیات میں تقریباً سات فٹ برف پڑی، اگر بروقت منصوبہ بندی نہ کی جاتی تو حالات مری سے ابتر ہوسکتے تھے۔ اس صورت حال میں حالات قابو میں رہنے کی بنیادی وجہ صوبائی حکومت، پولیس اور گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی (جی ڈی اے ) کی اجتماعی منصوبہ بندی اور حکمت عملی بتائی جا رہی ہے۔

مری اور ضلع ایبٹ آباد کے درمیان 50 سے 80 کلومیٹر پر پھیلا ایک پہاڑی علاقہ جس میں نتھیا گلی، باڑہ گلی، گھوڑا گلی، چھانگلہ گلی، ڈونگا گلی، بھوربن اور بعض دیگر علاقے شامل ہیں، کو مجموعی طور پر ’گلیات‘ کہا جاتا ہے۔ 

ہر سال موسم گرما اور برفباری کے موسم میں پاکستان بھر سے اور خصوصاً خیبر پختونخوا سے سیاح ان علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔ چونکہ گلیات کی سرحد مری کے ساتھ جڑی ہوئی ہے اس لیے یہ شاہراہ خیبر پختونخوا اور پنجاب کے سیاحوں کے لیے ’انٹری‘ اور ’ایگزٹ‘ کے طور پر بھی استعمال کی جاتی ہے۔

  گلیات میں کیا حکمت عملی اختیار کی گئی؟

ایبٹ آباد کے ضلعی پولیس افسر ( ڈی پی او) اور گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی (جی ڈی اے) کے ترجمان (دونوں) نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے محکمہ موسمیات کی جانب سے برفباری کی  پیشں گوئی کو سنجیدہ لیتے ہوئے اپنی حکمت عملی ترتیب دی تھی۔

انہوں نے کہا کہ فیصلہ یہ کیا گیا تھا کہ ’چاہے کچھ بھی ہو، نہ کسی کو گلیات کے اندر جانے دیا جائے گا اور نہ کسی کو ہوٹل سے چیک آؤٹ کرنے دیا جائے گا۔‘

تاہم، اس حکمت عملی کو ترتیب دینے کے باوجود بھی کچھ سیاح برف کے طوفان میں پھنس گئے، جنہیں پولیس کے تعاون سے بروقت گاڑیوں سے نکال کر ہوٹلوں میں منتقل کر دیا گیا۔

ڈی پی او ایبٹ آباد ظہور آفریدی نے بتایا کہ انہوں نے تین سو کی نفری تعینات کر کے نہ صرف داخلی اور خارجی راستوں کو بند کیے رکھا، بلکہ برف میں پھنسے لوگوں کو نکالنے اور ان تک  گرما گرم چائے ، پانی اور کھانا پہنچانے کا بندوبست بھی کیا۔

انہوں نے بتایا کہ دو سیاحوں کی حالت بہت خراب تھی ، جن کو محفوظ مقام پر لے جاکر ان کےلیے فوری ڈاکٹر کا بندوبست بھی کیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ہم نے سات جنوری کو مری کے قریب باڑیاں چیک پوائنٹ اور ایبٹ آباد میں ہرنو چیک پوائنٹ بند کیا۔ جی ڈی اے، صوبائی محکمہ سیاحت، اور پولیس کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر پیغامات سے عوام کو موسم اور راستوں کی صورتحال سے آگاہ کیا گیا۔‘

ڈی پی او ایبٹ اباد کے مطابق گلیات میں تقریباً سات فٹ برف پڑی۔ اگر بروقت منصوبہ بندی نہ کی جاتی تو حالات مری سے ابتر ہوسکتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک برفباری کا موسم اختتام تک نہیں پہنچتا، گلیات کو سیاحوں کے لیے بند رکھا جائے گا۔

دوسری جانب جی ڈی اے کے ترجمان احسن حمید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ نتھیا گلی اور ایبٹ آباد کے تمام راستوں کو برف سے صاف کر دیا گیا ہے اور آج تمام ہوٹلوں کو سیاحوں سے خالی کرایا جارہا ہے۔

انہوں نے حالیہ برفباری میں حالات کو قابو میں رکھنے کے لیے جی ڈی اے کی حکمت عملی پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ جیسے ہی محکمہ موسمیات کی جانب سے پیشن گوئی ہوئی انہوں نے سات جنوری بروز جمعہ صرف ایک دن کے اندر ساڑھے دس ہزار سیاحوں کو گلیات میں داخل ہونے سے روکتے ہوئے انہیں واپس لوٹایا۔

’سات ہزار لوگ ایبٹ آباد میں ہرنو چیک پوائنٹ سے واپس کیے گئے اور ساڑھے تین ہزار مری کی جانب سے۔ یہ تمام وہ سیاح تھے جو گلیات میں ٹھہرنا چاہ رہے تھے۔‘

احسن حمید نے مزید بتایا ’جی ڈی اے، پولیس اور صوبائی حکومت نے بروقت مشاورت کرکے ایک متفقہ فیصلہ کیا کہ تمام راستے بند کیے جائیں۔ اگلی اطلاع تک کسی کو ہوٹل سے چیک آؤٹ نہ کرنے دیا جائے، اور اس دوران کسی سے جگہ کا کرایہ اور کھانے پینے کے پیسے وصول نہ کیے جائیں،جس پر ہوٹل مالکان نے من وعن عمل کیا۔‘

جی ڈی اے ترجمان نے بتایا کہ جو حکمت عملی وضع کی گئی وہ جی ڈی اے ہمیشہ سے ترتیب دیتا آیا ہے، جس کی وجہ سے حالات قابو میں رہتے ہیں ۔

’جب ہم نے دیکھا کہ سیاحوں کی ایک بڑی تعداد گلیات میں داخل ہوچکی ہے، اور گاڑیوں کو پارکنگ میں جگہ نہیں مل رہی ہے، اس سے ہمیں اندازہ ہوجاتا ہے کہ اب ہوٹلوں میں مزید گنجائش نہیں رہی ہے۔ ہمیں خدشہ تھا کہ پانی کی کمی کا مسئلہ بھی ہوسکتا ہے۔‘

خیبر پختونخوا کے محکمہ سیاحت و ثقافت کے میڈیا ترجمان محمد سعد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ برفباری سے قبل اور اس دوران عوام کی سہولت کے لیے ان کے ادارے نے سوشل میڈیا پر عوام کو تازہ ترین صورتحال سےآگاہ رکھا۔

وزیر اعلی خیبر پختونخوا کے معاون خصوصی برائے اطلاعات بیرسٹر محمد علی سیف نے گلیات سے متعلق ایک پیغام میں کہا کہ وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر پہاڑی علاقوں میں متعلقہ محکمے الرٹ ہیں اوراب تک پچھتر ہزار سے زائد گاڑیوں کو ریسکیو کیا گیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان