ہر وقت اس چیز پر تو بات ہوتی ہے کہ سیاحوں کو بہت کم سہولیات حاصل ہیں لیکن کوئی اس پر بات کیوں نہیں کرتا کہ تفریح گاہوں اور سیاحتی مقامات پر سیاحوں کے کیا فرائض ہیں۔
پاکستان میں اس وقت موسم خوشگوار ہوگیا ہے بارشوں اور گرمی کی تعطیلات کی وجہ سے اب عوام سیاحتی مقامات کا رخ کر رہے ہیں۔
پاکستان میں بلند پہاڑ، ریتلے صحرا، طویل ساحل اور دریا موجود ہیں۔ اس لیے سیاحوں کے پاس بہت سے آپشنز ہوتے ہیں کہ وہ تفریح کے لیے کہاں جائیں۔
جہاں ہم سہولیات کی کمی کا رونا روتے ہیں وہاں پر ہم سیاحوں کے کچھ فرائض بھی بنتے ہیں۔ تفریح کرنے کے آداب ہوتے ہیں اگر ان قواعد پر عمل نہیں کیا جائے گا تو ایک غلطی عمر بھر کا روگ بن سکتی ہے۔
سب سے زیادہ سیاح دریاٰؤں اور سمندر کا رخ کرتے ہیں۔ ادھر ہی سب سے زیادہ ساںحات اور حادثات جنم لیتے ہیں۔ ہمارے ملک میں تیراکی سیکھنے کا کوئی رواج نہیں ہے لیکن اس کے باوجود پانی میں ڈبکی لگانا ضروری ہے۔
اس ہی وجہ سے لوگ ڈوب جاتے ہیں۔ لائف گارڈز موجود نہیں ہوتے ان کو بچانے کی کوشش میں دیگر لوگ بھی ڈوب کر ہلاک ہوجاتے ہیں۔ ڈیم میں تو ہرگز تیراکی مت کریں یہ بہت گہرا ہوتا ہے ندی، نالے، جھرنے، آبشار میں تو پھر بھی بچ نکلنے کے امکانات ہوتے ہیں لیکن ڈیم میں تو یہ امکان بالکل صفر ہوجاتا ہے۔
ملک میں جتنے بھی ڈیمز ہیں وہاں پر تو نہانے پر پابندی ہونی چاہیے۔ کچھ عرصہ قبل خان پور ڈیم میں ایک کشتی کو آگ لگ گئی تھی جس سے ایک خاتون جل کر ہلاک ہوگئی تھیں۔
ڈیم ہرگز بھی تفریح گاہیں نہیں ہیں یہاں پر تیراکی، واٹر سپورٹس اور بوٹنگ جان سے کھیلنے کے مترادف ہے۔
دریا سمندر کو گندا نہیں کریں۔ کچرا کوڑے دانوں میں پھینکیں اور سیاحتی مقامات پر توڑ پھوڑ مت کریں۔ آبی حیات کو نقصان مت پہنچائیں اور نہ ہی غیرقانونی طور پر مچھلی کا شکار کریں۔
بغیر لائف جیکٹ پہنے تیراکی اور واٹر سپورٹس سے گریز کریں۔ جہاں ماہر تیراک اور ریسکیو ٹیمز موجود ہوں ان کی نگرانی میں آپ سیاحت اور واٹر سپورٹس کرسکتے ہیں ورنہ پکنک منائیں کھانا کھائیں اور واپس آجائیں۔
حال ہی میں ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں ایک ڈاکٹر ایک بچے کی سانس بحال کررہی تھیں۔ بچہ دریا کے پانی میں ڈوب گیا تھا۔ ڈاکٹر کی وجہ سے بچے کی جان بچ گئی۔
یہاں پر اس بحث نے جنم لیا کہ ابتدائی طبی امداد کتنی ضروری ہے اور سیاحتی مقامات پر ریکسیو ٹیمز کیوں نہیں ہوتیں۔
اس بچے کی خوش قسمتی تھی کہ وہاں ڈاکٹر موجود تھیں اور اس کی جان بچ گئی۔ لیکن سیاحوں کو بھی احتیاط کرنی چاہیے، ایسی تفریح نہیں کرنی چاہیے جس میں ان کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔
ڈاکٹر اسامہ جاوید اسلام آباد کے معروف ہسپتال کے شعبہ حادثات کے رجسٹرار ہیں وہ کہتے ہیں کہ بیسک لائف سپورٹ کی تربیت عوام کو دینا چاہیے تاکہ ہسپتال پہنچنے سے قبل جان بچائی جاسکے۔
ڈاکٹر شہربانو جو شعبہ حادثات میں ڈاکٹر ہیں کہتی ہیں بہت سے کیسز ایسے آتے ہیں جن میں ہاتھ یا بازو میں فریکچر ہوتا ہے، کچھ کیسز میں لوگ کرنٹ لگنے یا ڈوبنے کی وجہ سے ہسپتال پہنچ جاتے ہیں۔
اگر عوام کو ابتدائی طبی امداد کی تربیت دی جائے تو بہت سے سانحات کی شدت کو کم کیا جاسکتا ہے۔ اس کے ساتھ عوام بھی تفریح گاہوں اور سیاحتی مقامات پر لگے بورڈز پر ہدایات پڑھیں اور ان پر عمل کریں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کچھ سیاح تفریح کے لیے پہاڑوں کا رخ کرتے ہیں وہاں کھانا بنا کر یا باربی کیو کرکے اور چائے بناکر پکنک کا لطف اٹھاتے ہیں۔ اکثر جنگلات میں سیاحوں کی غلطی سے آگ لگ جاتی ہے جس سے جنگلی حیات اور درختوں کو نقصان پہنچتا ہے۔
آتش زدگی کے زیادہ تر واقعات جلتے سگریٹ کے پھینکے کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ بہت سے سیاح پکنک کے بعد کچرا وہیں چھوڑ آتے ہیں۔ جس سے گندگی اور تعفن پھیل جاتا ہے۔ تفریحی مقامات پر قدرتی ماحول اور علاقے کے رسم و رواج کا خیال کریں۔ زیادہ دور جنگلات میں مت جائیں کیوں کہ اس طرح آپ راستہ بھٹک سکتے ہیں۔
اسلام آباد میں مارگلہ ہلز پر پگڈنڈیاں قائم ہیں وہاں اکثرلوگ راستہ بھٹک جاتے ہیں۔ اس حوالے سے اسلام آباد پولیس کا شعبہ تعلقات عامہ کہتا ہے کہ اسلام آباد کے ساتھ پہاڑی سلسلہ منسلک ہے اور پاکستان بھر سے یہاں سیاح آتے ہیں۔
’ہم ان کو یہ تلقین کرتے ہیں وہ دن کے وقت میں سیاحت کریں اور نشانات کو عمل کریں۔ ٹریلز پر لوگ بھٹک جاتے ہیں پھر پولیس ان کو تلاش کرکے واپس لاتی ہے۔ وہاں پر ہماری ٹیمز موجود ہوتی ہیں جوکہ عوام کو ریسکو میں فوری مدد دیتی ہیں۔ ہمارا سائیکل سکواڈ اور ہارس رائڈرز بھی موجود ہوتے ہیں۔‘
اکثر سیاح تفریح کے دوران زخمی ہوتے ہیں، گر جانے سے چوٹ لگ جاتی ہے، فریکچر ہوجاتے ہیں، راستے سے بھٹک جاتے ہیں یا ٹریفک حادثات ہوجاتے ہیں۔
بہت سے لوگ اب دیوسائی اور دیگر نشینل پارک تک سیاحت کے لیے جاتے ہیں۔ ملک میں امن و امان ہے اور سڑکوں کا جال بچھ گیا ہے تو دور دراز کے علاقوں کا سفر آسان ہوگیا ہے۔
نیشنل پارک کے قواعد و ضوابط کا خیال رکھیں، وہاں شور مت کریں، آگ مت لگائیں، جانوروں اور نباتات کو نقصان مت پہنچائیں۔ وہاں پر شکار کرنا جرم ہے اس لیے ایسی غلطی مت کریں۔ جانوروں کو تنگ مت کریں نا ہی پرندوں کے شکار کی کوشش کریں۔
آثار قدیمہ یا عجائب گھروں میں چیزوں کو چھوںے سے گریز کریں اور کسی جگہ پر وال چاکنگ مت کریں۔ بہت سے سیاحتی مقامات پر لوگ اپنا نام لکھ جاتے ہیں یہ بہت افسوسناک ہے۔
جب تک سیاح خود کو قواعد و ضوابط کا پابند نہیں کریں گے سیاحتی مقامات کو نقصان پہنچتا رہے گا۔ اگر پارک جائیں تو بڑی عمر کے افراد بچوں کے جھولوں پر مت بیٹھیں اس سے یہ ٹوٹ جاتے ہیں۔
تفریح کرتے وقت یہ خیال کریں کہ نہ خود کو تکلیف میں ڈالنا ہے اور نہ ہی کسی اور کو نقصان پہنچائیں۔ قدرتی ماحول اور نباتات کو خراب مت کریں اور جانوروں، آبی مخلوق اور پرندوں کو تنگ مت کریں۔
کسی بھی جگہ جائیں وہاں کی روایات کا خیال کریں اور مقامی لوگوں کو کوئی شہ سمجھ کر ان کی فوٹوگرافی مت کریں۔ بلاوجہ بحث مباحثے سے گریز کریں۔
اپنے پاس نقد رقم، پانی اور خشک راشن رکھیں گاڑی کی ٹنکی پیٹرول سے بھری رکھیں اور پہاڑی مقامات پر اگر ٹھنڈ ہے تو ساتھ گرم کپڑے رکھیں۔
ٹریفک قوانین اور تفریح گاہوں کے قوانین کا خیال کریں۔ بارش اور دھند میں گاڑی چلانے سے گریز کریں اور حد رفتار کم رکھیں۔
فی الحال تعطیلات ہیں لطف اندوز ضرور ہوں لیکن بطور سیاح اپنے فرائض کو مت بھولیں۔