کیا پاکستان انڈیا ٹیسٹ سیریز انگلینڈ میں ممکن ہے؟

ماہرین کے مطابق اصل مسئلہ انڈیا ہے جو پاکستان کرکٹ کو کسی گنتی میں شاید نہیں لاتا۔

12 اپریل 2005 کو احمد آباد کے سردار پٹیل کرکٹ سٹیڈیم میں بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک روزہ بین الاقوامی میچ کے بعد پاکستانی کپتان انضمام الحق اور بھارتی کپتان سارو گنگولی پریزنٹیشن تقریب کا انتظار کر رہے ہیں۔ پاکستان نے انڈیا کے خلاف آخری سیریز 2007 میں کھیلی تھی (اے ایف پی/ رویندرن)

پاکستان اور انڈیا کے درمیان آخری ٹیسٹ سیریز کو پندرہ سال بیت چکے ہیں۔ دسمبر 2007 کے بعد سے دونوں ممالک کے درمیان کرکٹ تعلقات منقطع ہیں اگرچہ اس بیچ 2012 میں ایک ون ڈے سیریز انڈیا میں کھیلی گئی لیکن اس کے بعد سے دونوں ممالک اپنی اپنی سرزمین پر کبھی آمنے سامنے نہیں آئے ہیں۔

ایک طویل عرصے کے بعد ٹھہرے ہوئے پانی میں ارتعاش کا سبب پاکستان انڈیا سیریز کے انگلینڈ میں ہونے کے لیے انگلینڈ بورڈ کے ڈپٹی چیئرمین مارٹن بارلو نے پی سی بی حکام سے ملاقات میں پیشکش کی ہے کہ اگر دونوں ممالک آمادہ ہوں تو انگلینڈ اپنے میدان میں سیریز کرانے کو تیار ہے۔

انہوں نے امید ظاہر کی کہ اگر ایسا ہوجاتا ہے تو یہ ایک بہت کامیاب سیریز ہو گی کیونکہ انگلینڈ میں دونوں ممالک کے تارکین وطن بڑی تعداد میں مقیم ہیں اور کرکٹ سے بہت محبت کرتے ہیں۔  

پی سی بی حکام نے اگرچہ کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے اور نہ گرمجوشی کا اظہار کیا ہے لیکن انگلینڈ بورڈ کی اس پیشکش کا مثبت ردعمل آنا چاہیے۔ اگر دونوں ممالک سیاسی وجوہات کی بنا پر ایک دوسرے کے ملک میں نہیں کھیل سکتے تو نیوٹرل مقام پر تو کھیل سکتے ہیں۔

انگلینڈ اس سے قبل بھی 2010 میں آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ سیریز کی میزبانی کرچکا ہے جب متحدہ عرب امارات میں گراؤنڈ کی عدم دستیابی پر پاکستان اور آسٹریلیا نے دو ٹیسٹ میچ انگلینڈ میں کھیلے تھے۔

اس سیریز میں آسٹریلیا کے کپتان رکی پونٹنگ نے تو سٹیڈیم میں پاکستان نژاد تماشائیوں کو دیکھ کر کہا تھا کہ کیا میچ نیوٹرل وینیو پر نہیں ہو رہا۔

کیا انڈیا اس کے لیے تیار ہوگا؟

انڈین کرکٹ بورڈ متعدد بار پاکستان کی اس پیشکش کو رد کرچکا ہے کہ اگر وہ پاکستان آکر نہیں کھیلنا چاہتا ہے تو دبئی یا کہیں اور کھیل سکتے ہیں تاہم انڈین کرکٹ بورڈ اپنی حکومت سے رہنمائی لیتے ہوئے پاکستان کے ساتھ ہر قسم کے کرکٹ تعلقات منقطع رکھنا چاہتا ہے چاہے وہ کسی نیوٹرل جگہ پر بھی میچ کھیلے جائیں۔

حتی کہ بہت سے انڈین شائقین اپنے سیاست دانوں کے ہمنوا ہوتے ہوئے آئی سی سی ٹورنامنٹ میں بھی میچ کے مخالف ہیں۔ انڈین حکومت اور سیاست دان کیا موقف رکھتے ہیں اس کا عملی کرکٹ سے کوئی تعلق نہیں لیکن کرکٹ بورڈ کے حکومتی اثر میں ہونے کے باعث بورڈ تنہا کسی فیصلہ کرنے کا مجاز نہیں ہے۔

انڈیا کے کئی سابق ٹیسٹ کرکٹرز اور صحافی اس فیصلے سے متفق نہیں ہیں۔ ان کے خیال میں کرکٹ کو سیاست سے دور رہنا چاہیے اور دونوں ممالک کے درمیان کرکٹ ہم آہنگی پیدا کرسکتی ہے۔

پاکستان کا موقف

پی سی بی اور حکومت پاکستان ابتدا سے باہمی کرکٹ سیریز کی حامی ہے اور اس بات کا اعادہ کرتی رہتی ہے کہ پاکستان کسی بھی جگہ انڈیا کے ساتھ کھیلنے کو تیار ہے۔ 2007 کی آخری سیریز کے بعد اگلی سیریز پاکستان کا حق ہے جیسا کہ آئی سی سی کے فیوچر پروگرام اسے شامل کیا گیا تھا لیکن اس پر عمل در آمد نہ ہو سکا۔

پی سی بی کے ایک سابق چیئرمین نے اس سلسلے میں بہت کام کیا تھا اور پاکستان انڈیا سیریز کے امکانات روشن ہو گئے تھے لیکن پی سی بی میں مستقل مزاجی نہ ہونے کے باعث کرکٹ بحال نہ ہوسکی۔

ماہرین پاکستان انڈیا سیریز کو ایشز سے بھی بڑا مانتے ہیں ان کے خیال میں اگر دو ہمسایہ ممالک آپس میں سیریز کھیلیں تو مالی طور پر یہ کرکٹ کا سب سے بڑا ایونٹ ہوسکتا ہے اور پاکستان بورڈ کو بہت زیادہ فائدہ ہوگا۔

شاید یہی وجہ ہے کہ انڈیا کی پاکستان کو تنہا کرنے کی کوششوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ پاکستان کے ساتھ نہ کھیلا جائےاور نتیجے میں اسے کوئی مالی فائدہ نہ ہو۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انگلینڈ کرکٹ بورڈ کی حالیہ پیشکش کا سامنے آنا ایک مثبت پیش رفت ہے لیکن انگلینڈ بورڈ اگر اپنی پیشکش میں سنجیدہ ہے تو اسے انڈین بورڈ سے بھی بات کرنا چاہیے اور ایک میز پر بڑھا کر بات چیت کا سلسلہ شروع کرنا چاہیے۔

آئی سی سی کی سردمہری

پاکستان اور انڈیا کے درمیان کرکٹ تعلقات میں تعطل پر آئی سی سی کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جس نے اختیارات ہونے کے باوجود اس کی بحالی میں کوئی کردار نہیں ادا کیا۔ حالانکہ تنازعات سے نمٹنے میں عالمی ادارے اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

اب جبکہ آئی سی سی کے جنرل مینیجر وسیم خان ہیں جو ماضی قریب میں پی سی بی کے ایم ڈی تھے اور مکمل اختیارات کے مالک تھے پی سی بی کے موقف کو بہتر انداز میں سمجھ سکتے ہیں۔

چند ماہ قبل پی سی بی کے چیئرمین رمیز راجہ کی چار ممالک کی سیریز کی تجویز آئی سی سی کے اجلاس میں زیر بحث نہیں آسکی تھی اور قصہ پارینہ بن گئی تھی، حالانکہ آسٹریلیا انڈیا اور انگلینڈ سہ فریقی سیریز کا آئیڈیا پہلے ہی پیش کرچکے ہیں اور بگ تھری کا گروپ بھی بناتے رہے ہیں لیکن پاکستان کی شمولیت پر تینوں کی خاموشی معنی خیز ہے۔

کیا انگلینڈ ایسی کسی سیریز کو سنبھال سکے گا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب آسان لیکن عملی روپ مشکل ہے کیونکہ دونوں ممالک کے مداحوں میں اختلافات کی آگ اب اپنے ممالک سے نکل کر انگلینڈ تک پہنچ چکی ہے۔ لیسٹر میں ایشیا کپ کے پاکستان انڈیا میچ کے بعد سے اب تک آگ ٹھنڈی نہیں ہوئی ہے۔ اور گاہے بگاہے دونوں گروپوں میں چھیڑ چھاڑ چلتی رہتی ہے جس نے شہر کے امن کو متاثر کیا ہے مقامی پولیس اگرچہ پر تشدد واقعات پر قابو پانے کا دعوی کرتی ہے لیکن زمینی حقائق کچھ اور ہیں اور واقعات کا ہدف اب مسلم ہندو کشیدگی بن گیا ہے۔

برصغیر کی صورت حال سے قطع نظر انگلینڈ بورڈ کے ڈپٹی چئیرمین کی انگلینڈ میں پاکستان انڈیا سیریز کی پیشکش اگرچہ غیر رسمی ہے اور ابھی صرف خیالی پلاؤ تک ہی ہے لیکن کیا انڈیا ایسی کسی تجویز پر غور کرنے کا عندیہ دے گا؟ شاید نہیں۔ کیونکہ انڈیا اب پاکستان کرکٹ کو کسی گنتی میں لانے کو تیار نہیں ہے اور مکمل طور پر تنہا کر دینا چاہتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ