اپنا موقف دھڑلے سے بیان کرنے والے یوسف مستی خان

شعلہ بیان اور بلوچ اور بلوچستان کے حوالے سے ہر فورم پر اپنا موقف دھڑلے سے بیان کرنے والے یوسف مستی خان ہمیشہ زیر عتاب رہے ہیں۔

یوسف مستی خان عوامی ورکرز پارٹی کے وفاقی صدر کے عہدے پر فائز رہے (تصویر: انڈپینڈنٹ اردو)

معروف ترقی پسند و بلوچ قوم پرست سیاست دان اور رہنما یوسف مستی خان کا 29 ستمبر 2022 کو انتقال ہوا ہے۔ وہ طویل عرصے سے کینسر کے مرض میں مبتلا تھے۔

شعلہ بیان اور بلوچ اور بلوچستان کے حوالے سے ہر فورم پر اپنا موقف دھڑلے سے بیان کرنے والے یوسف مستی خان ہمیشہ زیر عتاب رہے ہیں۔ ان پر آخری مقدمہ گوادر میں گذشتہ سال کیا گیا تھا جس میں غداری کی دفعات شامل کی گئی تھیں۔

یوسف مستی خان عوامی ورکرز پارٹی کے وفاقی صدر کے عہدے پر فائز رہے اور اسی پلیٹ فارم سے وہ ہر جدوجہد میں نمایاں رہے۔

کراچی سے تعلق رکھنے والے صحافی اور مصنف عزیز سنگھور یوسف مستی خان کے بارے میں کہتے ہیں کہ ان کا خلا کبھی پر نہیں ہو سکتا۔ یوسف مستی خان کے جانے سے بلوچ اور دیگر اقوام بھی قیادت سے محروم ہو گئی ہیں۔

عزیز سنگھور نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پوری زندگی مظلوم بلوچ عوام اور بلوچستان کی سیاست ان کا محور رہا۔ وہ میر غوث بخش بزنجو، سردار عطااللہ مینگل، نواب خیر بخش مری کے ہم عصر تھے اور اس دور کے آخری رہنماؤں میں سے ایک تھے۔ ‘

انہوں نے بتایا کہ ’لیاری گینگ وار کا مسئلہ ہو یا کراچی میں قدیم بلوچ آبادی کی زمینیں ہتھیانے کی کوشش ہو۔ اس دوران ہمیں سب سے زیادہ متحرک اور جدوجہد کرتے یوسف مستی خان نظر آتے تھے۔‘

’جب بحریہ ٹاؤن والا مسئلہ ہوا۔ (چھ جون 2021کو مقامی دیہاتوں کو مسمار کرنے کے خلاف بحریہ ٹاؤن کے مرکزی گیٹ پر احتجاج ہوا تھا) ان کی جدوجہد سے بہت سے مسائل بھی حل ہوئے اور ان کو مراعات بھی پیش کش ہوئی لیکن انہوں نے ٹھکرا دیا تھا۔‘

ان کے بقول: ایک متمول خاندان اور قدآور رہنما ہونے کے باوجود یوسف عام ورکرز کے ساتھ ان جیسے بن جاتے تھے۔ جو ان کی ایک خاص خوبی تھی۔

عزیز سنگھور کے مطابق: گذشتہ سال دسمبر میں انہوں نے حق دو تحریک گوادر کے دھرنےسے خطاب کیا، تو نو دسمبر کو ان کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کر کے ان کو گرفتار کیا گیا، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کا انداز خطابت اور موقف کتنا سخت رہا تھا۔

’جب یوسف مستی خان نے بلوچ متحدہ محاذ کے نام سے اتحاد بنایا تو خان آف قلات سلیمان داؤد نے ان کی قیادت پر ایک پیغام جاری کرتے ہوئے بلوچ قوم سے ان کا ساتھ دینے کی اپیل کی تھی۔‘

عزیز سنگھور کہتے ہیں یوسف مستی خان نے ’بلوچ وسائل ریکوڈک، سیندک پر عدالتوں سے بھی رجوع کیا۔ سیاسی موقف ہمیشہ صاف اور واضح رکھا۔ میں نے ان جیسا اصولوں پر سمجھوتہ نہ کرنے والا شخص نہیں دیکھا۔‘

’یوسف مستی خان کتاب دوست اور ادب سے دلچسپی رکھتے تھے۔ ان کے گھر میں بھی کتابیں ہوتی تھی۔ میں نے ان کو اپنی کتاب ’سلگھتا بلوچستان‘ کی تقریب رونمائی میں بہ حیثیت مہمان خاص دعوت دی تھی۔ لیکن انہوں نے معذرت کرتے ہوئے کہا تھا کہ مجھے پہلے مولانا ہدایت الرحمان نے گوادر آنے کا کہا ہے۔ اس لیے میں وہاں جارہا ہوں۔‘

پیدائش اور ابتدائی تعلیم 

یوسف مستی خان 16 جولائی 1944 کو کراچی کے معروف کاروباری گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے آٹھویں جماعت تک تعلیم برن ہال سکول ایبٹ آباد سے حاصل کی اس کے بعد وہ تین سال  کراچی گرائمر سکول میں رہے اور بعد میں سینٹ پیٹرک سکول میں بھی تعلیم حاصل کی۔

انہوں نے گریجویشن 1968 میں نیشنل کالج کراچی سے کیا۔

یوسف مستی نے سیاست کا آغاز  بلوچ طلبہ تنظیم بی ایس او کے پلیٹ فارم سے کیا۔ بعد ازاں میر غوث بخش بزنجو کی قیادت میں نیپ کا حصہ رہے۔

 1974 میں نیپ کی حکومت ختم ہونے کے بعد وہ پابند سلاسل بھی رہے اور بعد میں جب میر غوث بخش بزنجو نے پاکستان نیشنل پارٹی بنائی تو ان کے ہمراہ نیشل پارٹی میں  فعال کردار ادا کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

  90 کی دہائی میں پاکستان نیشل پارٹی ٹوٹنے کے بعد چند سال نیشنل پارٹی کے ایک گروپ کے سربراہ رہے۔ ترقی پسند سیاست کی جدوجہد اور عوامی قوت کو منظم کرنے کی غرض سے دیگر ترقی پسند سیاسی گروپوں کے ساتھ مل کر پاکستان ورکرز پارٹی تشکیل دی۔

بعد ازاں اسے مزید وسعت دیتے ہوئے بائیں بازو کے دیگر سیاسی پارٹیوں کا ادغام کر کے عوامی ورکرز پارٹی کے قیام کو یقینی بنایا۔ 

یوسف مستی خان نے 2002 کے عام انتخابات میں سندھ نیشنل الائنس کے پلیٹ فارم سے ملیر سے قومی نشست پر الیکشن میں حصہ لیا۔ وہ کراچی کے بلوچوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے اور ان کے حقوق کے تحفظ اور حصولی  کی خاطر ہمیشہ کوشاں رہے۔ 

انہوں نے 1986 میں انور بھائی جان کی قیادت میں  بلوچ اتحاد کے قیام میں اہم کردار ادا کیا اور زندگی کے آخری سالوں میں بلوچ متحدہ محاذ بنایا۔

مستی خاندان کون ہے؟

واشنگٹن میں مقیم مستی خان کے فرد احمر مستی خان بتاتے ہیں کہ ہمارے حاندان کا بنیادی تعلق ایران کے علاقے باہو قلات چاہ بہار سے رہا ہے۔ ہم گورگیج قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔

احمر مستی خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہماری فیملی تقریباً ڈیڑہ سو سال قبل ایران سے کراچی منتقل ہوا تھا۔ یہ چار بھائی تھے اور غریب طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ جنہوں نے ابتدائی طور پر کراچی میں مزدوری کا کام کیا تھا۔

’پھر 1885 کے دوران ہماری فیملی کراچی سے آسٹریلیا چلی گئی اور وہاں پرتھ میں رہائش اختیار کی۔ تین سال وہاں پر کام کرنے کے بعد یہ لوگ پھر دوبارہ کراچی آگئے۔‘

احمر کہتے ہیں کہ اس کے بعد اس وقت ہندوستان کے علاقے آسام میں کوئلہ کا کاروبار ہوتا تھا۔ تو ہمارے لوگ وہاں چلے گئے۔ کئی عرصے تک کام کیا اور جب یہاں پر کام ختم ہوگیا تو انہوں نے برما کا رخ کیا۔

انہوں نے بتایا کہ برما میں قسمت ان پرمہربان ہوگئی۔ کیوں کہ اس وقت انگریز وہاں ریلوے لائن بچھا رہے تھے۔ انہوں نے اس کے لیے پتھر لانے کا کاروبار شروع کیا جس کے باعث یہ برما کے سرمایہ دار طبقے میں دوسرے درجے پر چلے گئے۔

’ہماری فیملی نے برما میں کچھ رئیل سٹیٹ کا بھی کیا اور وہ پیسہ پتھر کے کاروبار میں لگا دیا۔ اس طرح وہ بلوچ قوم کے سرمایہ داروں میں شمار ہونے لگے۔‘

انہوں نے بتایا کہ یوسف مستی خان کے والد کا نام اکبر مستی خان اور دادا کا نام بھی یوسف تھا۔ دادا جو برما سے لندن چلے گئے۔ وہاں بیمار ہوئے اور 1921 میں ان کی وہیں پر وفات ہوئی۔ اس وقت بابر کی عمر بہت کم تھی۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان