جرائم سے متعلق شوز میں سیریل کلرز کو ہیرو بنانا بند کرنا ہو گا

پوڈ کاسٹ، سٹریمنگ سیریز اور کتابوں میں کثرت سے سچے جرائم پیش کرنے کی وجہ سے پرتشدد اور خطرناک مجرموں میں دلچسپی بڑھ رہی ہے اور متاثرین کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔

آسٹریلوی جرائم کی دنیا کی شخصیت اور منشیات کے اسمگلر، کارل ولیمز کو 2004 کی اس تصویر میں ان کے دوست اور باڈی گارڈ، اینڈریو 'بینجی' وینیمین کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے جاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے (اے ایف پی)

حتیٰ کہ موت کے منتظر کارل ولیمز کی آواز بھی ان کے متاثرین سے کہیں زیادہ بلند ہے۔ سزا یافتہ قاتل اور منشیات کے اسمگلر کی جانب سے اپنی سابقہ بیوی رابرٹا کو لکھے گئے خطوط اگست 2019 میں شائع ہوئے تھے۔

خود رابرٹا کو بھی حال ہی میں ایک فلم پروڈیوسر کو مبینہ طور پر اغوا اور قتل کی دھمکیاں دینے پر گرفتار کیا گیا تھا۔

پوڈ کاسٹ، سٹریمنگ سیریز اور کتابوں میں کثرت سے سچے جرائم پیش کرنے کی وجہ سے پرتشدد اور خطرناک مجرموں میں ہماری دلچسپی بڑھ گئی ہے  اور اس کا مطلب یہ ہے کہ متاثرین کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔

درحقیقت، ایوان ملت، ٹیڈ بنڈی، اور جیفری ڈاہمر مشہور فرضی نام ہیں۔ اس کے باوجود ڈیبورا ایورسٹ، کیرن کیمبل، یا ٹونی ہیوز – ان پر تشدد قاتلوں کے متاثرین کو کافی حد تک بھلا دیا گیا ہے۔

میرے طالب علم اور میں اکثر مجرمانہ وجوہات، یا شکار کے انتخاب کے بارے میں بات چیت کی خاطر حوصلہ افزائی کے طور پر حقیقی جرم پر مبنی دستاویزی فلمیں دیکھتے ہیں۔

حال ہی میں اس طرح کے ایک ٹیوٹوریل میں ایک طالب علم نے بدنام زمانہ امریکی سیریل قاتل ٹیڈ بنڈی کی تعریف کی، حتیٰ کہ یہاں تک کہہ دیا وہ کی راغب ہے۔ یا کم از کم ہالی ووڈ کے دل کی دھڑکن زیک ایفرون تو بالکل اسی کی طرح ہیں۔

بنڈی نے کم از کم 30 خواتین کو قتل کیا، بہت سے لوگوں پر حملہ کیا، اور دو بار جیل سے فرار ہوا۔ وہ شاید 1960 کی دہائی کے آخر سے 1978 تک سرگرم رہا۔

بنڈی ’ایک قاتل کے ساتھ بات چیت‘ کے عنوان سے بننے والی حالیہ چار حصوں کی نیٹ فلکس سیریز کا موضوع تھا: ٹیڈ بنڈی ٹیپس، جسے ’موجودہ دور کے انٹرویوز، آرکائیو فوٹیج اور موت کے انتظار میں کی گئی آڈیو ریکارڈنگ‘  کی بنیاد پر تیار کیا گیا۔

اس سیریز کا پریمیئر بنڈی کی پھانسی کے 30 سال بعد جنوری 2019 میں ہوا تھا۔

نیٹ فلکس نے بنڈی کے جرائم کے اس حقیقت پسندانہ سیریز کو آگے بڑھاتے ہوئے’ایکسٹریملی وِکڈ اینڈ شاکنگلی ایول اینڈ وائلڈ‘ نامی کیس کے بارے میں ایک فلم بنائی، جس میں ایفرون نے اداکاری کی۔

میں نے اپنی طالب علم کی اس کے لیے محبت دیکھی۔ وہ خوفناک تشدد کو نظر انداز کرنے کے لیے تیار تھی کیونکہ ایفرون ایک کرشماتی اور پرکشش شخص تھا اور یہی بنڈی کے بارے میں بھی سچ تھا -

 میں حیران رہ گئی کہ کیا سچے جرم کے ذریعے مجرموں کی گلیمرائزیشن لوگوں کو متاثرین کی حالت زار سے بے خبر کر رہی ہے۔ اور، اگر یہ ایسا ہی تھا، تو اس کا اثر زندہ بچ جانے والے متاثرین اور ان کے اہل خانہ پر پڑا۔

کچھ متاثرین بول رہے ہیں۔ بل تھامس پر توجہ مرکوز کرنے والے ایک حالیہ مضمون، جن کی بہن کیتھی کا 1986 میں پارک وے ، ورجینیا میں قتل ہوا تھا، وہ کیس ابھی تک حل نہیں ہوا ہے۔

تھامس بل اپنی بہن کے قتل کی طرف توجہ مبذول کرانے اور ایف بی آئی پر مزید تحقیقات کے لیے دباؤ ڈالنے کی غرض سے ’کرائم کون‘ نامی سالانہ میلے میں موجود ہیں۔

ایسا کرنے کے لیے انہیں سیریل کلرز کے چہروں  والے کپڑے  پہنے ہوئے لوگوں کے ساتھ کھڑے ہونا پڑے گا۔

ہم خاص طور پر بھلا دیئے کیسز سے متاثر ہوتے ہیں۔ حتیٰ کہ ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ مجرم کون ہے، جرائم کی پرکشش تفصیلات متاثرین کے درد اور مصائب پر حاوی ہو جاتی ہیں۔

مجھے حال ہی میں ایک کتاب لکھنے کے دوران ان بھلا دیے گئے مقدمات کے بارے پتا چلا۔ اس کا مقصد متاثرین پر توجہ مرکوز رکھنا ہے۔ اس میں ہر کیس کچھ نیا سیکھنے کی امید سے شامل کیا گیا۔ ایک نئی فرانزک تکنیک جس سے شائد اس میں پیش رفت ہو، ایک اور متاثر جو شائد سیکوئنس کا حصہ ہو اور جس کا کیس حل نہیں ہوا ہے۔

متاثرین کی شناخت اس شخص کی شناخت میں شامل ہو جاتی ہیں، جس نے انہیں متاثر کیا، اور میں چاہتی ہوں کہ اس میں سے کچھ کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے۔

ایوان ملت اور ڈینیئل ہولڈم (جنہوں نے 2010 میں کارلی پیئرس اسٹیونسن اور اس کی 2 سالہ بیٹی کھنڈالس پیئرس کو پرتشدد طریقے سے قتل کیا تھا) جیسے نرگسیت پسند قاتل جیل سے خطوط لکھ کر اپنی بدنامی برقرار رکھتے ہیں۔ ملت کے اپنے بھتیجے الیسٹر شپسی کو لکھے گئے خطوط 2016 میں شائع ہوئے تھے۔

 ہولڈم کے خطوط کو ڈیلی ٹیلی گراف کے ذریعہ پوڈ کاسٹ میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ لیکن حالیہ واقعات کی وجہ سے توجہ میں تبدیلی دیکھی گئی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وکٹمولوجی (متاثرین کا مطالعہ) ایک جرمیاتی نظم و ضبط کے طور پر بڑھ رہا ہے اور ماہرین تعلیم اور متاثرین کی معاونت کرنے والے کچھ عرصے سے کہہ رہے ہیں کہ محور کو مجرموں سے متاثرین کی طرف منتقل کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن ہماری چیخیں بے اثر جا رہی ہیں۔

15 مارچ 2019 کو کرائسٹ چرچ کی مسجد میں فائرنگ کے واقعات نے اس وقت توجہ مبذول کروائی جب نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن نے مجرم کا نام لینے سے انکار کر دیا- ایک 28 سالہ آسٹریلوی شخص جس نے اس ظلم کو براہ راست نشر کیا تھا اور سفید فام نسل کشی کی سازش کے نظریات کا خاکہ پیش کرتے ہوئے ایک منشور جاری کیا۔

اس کے بجائے انہوں نے عوام پر زور دیا کہ وہ متاثرین کے نام بتائیں۔ یہ ایک طاقتور پیغام تھا کہ مجرم کو وہ توجہ نہیں دی جائے گی جو اس نے مانگی تھی۔

نیوزی لینڈ نے اس سے بھی آگے بڑھ کر براہ راست فائرنگ کی ویڈیو کاپی کرنا ، تقسیم کرنا یا اس کی نمائش کرنا ایک مجرمانہ جرم بنا دیا، جس میں کسی فرد کے لیے 14 سال تک قید کی سزا ، یا کارپوریشن کے لیے ایک لاکھ ڈالر تک کا جرمانہ عائد کیا جاسکتا ہے۔

 ایک شخص کو اس ویڈیو کو شیئر کرنے پر تقریبا دو سال قید کی سزا سنائی گئی تھی جسے اس نے ویڈیو گیم کی شکل میں بنایا تھا، جس میں کراس بال اور لاشوں کی گنتی بھی شامل تھی۔

اسی سال کے آخر میں، ایک 24 سالہ خاتون مائیکلا ڈن کی شناخت سڈنی میں چاقو کے حملے کا شکار ہونے کے طور پر  کی گئی تھی۔

جب انہیں مبینہ طور پر سی بی ڈی اپارٹمنٹ میں 20 سالہ مرٹ نی نے قتل کر دیا تھا۔ اس کے بعد وہ اپنا چاقو سڑکوں پر لے گیا اور عوام نے اسے پکڑ لیا۔

متاثرہ خاتون کو خراج تحسین پیش کیا گیا، جو ان کی والدہ کے بقول ایک ’خوبصورت، محبت کرنے والی عورت‘ تھیں جنہوں نے یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی بہت زیادہ سفر کیا۔

پر تشدد جرائم اور اس کے مجرموں کی تشہیر سے مزید نقصان ہو سکتا ہے۔

کرائسٹ چرچ فائرنگ کے نو دن بعد کیلیفورنیا میں ایک مسجد میں فائرنگ کے بعد  آتشزنی کا واقعہ پیش آیا تھا۔  یہ مجرم کرائسٹ چرچ کے حملہ آور کا مداح تھا۔

پھر بھی مجھے امید ہے کہ اگر آرڈرن کی اخلاقیات کو مستقبل کے واقعات پر لاگو کیا جاتا ہے تو، پرتشدد مجرموں میں ہماری دلچسپی کم ہو جائے گی اور ان کے جرائم کے اثرات کے بارے میں ہماری حساسیت دوبارہ لوٹ آئے گی۔

ہم حقیقی جرائم کے واقعات سے ہمیشہ سیکھ سکتے ہیں، لیکن ہمیں مجرموں کی گلیمرائزیشن اور متاثرین اور ان کے خاندانوں کے مناسب احترام کے لیے محتاط رہنا چاہیے۔

نوٹ: یہ تحریر پہلے دا کنورسیشن پر شائع ہوئی تھی اور اس کا ترجمہ ان کی اجازت سے پیش کیا جا رہا ہے۔ زینتھی میلٹ برطانیہ کی نیو کاسل یونیورسٹی میں فارنسک کرمنالوجسٹ ہیں۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی ٹی وی