ویمن ایشیا کپ میں پاکستانی امپائر سلیمہ کا اعزاز

سلیمہ اور ان جیسی دیگر خواتین کے لیے ایشین کرکٹ کونسل کے سلہٹ میں منعقد ہونے والے ٹورنامنٹ کے لیے تمام خواتین امپائرز کو مقرر کرنے کے فیصلے کا مطلب نئے مواقع ہیں۔

پاکستانی امپائر سلیمہ امتیاز ایک میچ کے دوران (فیس بک)

تمام ڈیبیو کرنے والوں کی طرح، سلیمہ امتیاز بھی خوشی اور دباؤ کے ملے جلے جذبات سے گزر رہی تھیں جب انہوں نے اس ہفتے کے شروع میں ویمنز ایشیا کپ میں انڈیا بمقابلہ سری لنکا کےدرمیان پہلی بار کسی بین الاقوامی میچ میں امپائرنگ کی۔

لیکن یہ صورت حال پہلی گیند تک محدود تھی۔ انہوں نے ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے ڈومیسٹک لیول پر امپائرنگ کی ہے، اس لیے ایک بار گیند ہونے تک وہ اپنے کمفرٹ زون میں آچکی تھیں۔

سلیمہ اور ان جیسی دیگر خواتین کے لیے ایشین کرکٹ کونسل کے سلہٹ میں منعقد ہونے والے ٹورنامنٹ کے لیے صرف خواتین پر مشتمل امپائرز کے گروپ کو مقرر کرنے کے فیصلے کا مطلب نئے مواقع ہیں۔

سلیمہ نے ای ایس پی این کرک انفو کو بتایا: ’میں 15 سال سے امپائرنگ کر رہی ہوں، لیکن جب مجھے ایشین کرکٹ کونسل نے بلایا تو میں حیران رہ گئی۔ میں اپنا انٹرنیشنل ڈیبیو کرتے ہوئے تھوڑا نروس تھی۔ یہ میرے لیے پہلا ایکپوژر تھا۔ میں ظاہر ہے کہ بہت پرجوش تھی۔ لیکن یہ بہت اچھا تجربہ تھا۔ جب میچ میں پہلی گیند پھینکی گئی تو میں پراعتماد ہو گئی۔ میں نے خود سے کہا، 'میں یہ کر سکتی ہوں۔

’اے سی سی کی طرف سے خواتین امپائرز اور میچ ریفریز کے لیے یہ ایک بہترین موقع ہے۔ ہم مختلف ممالک اور ثقافتوں سے ہیں، لیکن ہم یہاں ایک خاندان کی طرح ہیں، ہم ایک دوسرے کو سپورٹ کرتے ہیں۔ ہم ایک دوسرے کو سکھاتے ہیں۔ ایسے مزید مواقع ہونے چاہیں۔ پچھلے ایشیا کپ میں مرد امپائرز یہ کام کرتے رہے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم اچھا کام کر رہے ہیں۔ میں ہمیں منتخب کرنے پر پی سی بی کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں۔

’مردوں کے خواتین کی طرح مسائل نہیں ہیں، خاص طور پر بنگلہ دیش اور پاکستان جیسے ایشیائی ممالک میں، اگر وہ اپنی بیٹیوں، بیویوں اور ماؤں پر بھروسہ کریں گے تو وہ خاندان کی عزت کریں گے۔‘

ایشیا کپ میں پاکستان کی طرف سے وہ اکیلی نہیں، حمیرا فرح بھی ہیں اور قطر، ملائیشیا اور متحدہ عرب امارات سمیت دیگر ایشیائی ممالک کی متعدد امپائرز اور دیگر میچ آفیشلز موجود ہیں۔

سلیمہ نے پی سی بی کی جانب سے کرائے گئے کورس میں حصہ لینے کے بعد 2006 میں امپائرنگ کا آغاز کیا۔ اس سے پہلے، ایک کھلاڑی کے طور پر ان کا کیریئر مختصر تھا۔ انہوں نے صرف دو سال ڈومیسٹک کرکٹ کھیلی تھی۔

وہ کراچی کے نکسر کالج میں سپورٹس کوآرڈینیٹر کے طور پر بھی کام کرتی ہیں۔ جہاں تک ایک کھلاڑی کے طور پر اپنے ملک کی نمائندگی کرنے کے خواب کا تعلق ہے، تو اسے ان کی بیٹی کائنات کے ذریعے پورا کیا گیا ہے، جو 2010 میں اپنے ڈیبیو کے بعد سے اب تک 35 بار پاکستان کے لیے کھیلی ہیں اور وہ ایشیا کپ ٹیم کے ساتھ سلہٹ میں بھی ہیں۔

سلیمہ نے کہا کہ ’میں دو ایک روزہ میچوں میں امپائر بنی جو کائنات کھیل رہی تھی، اس نے مجھے بالکل پریشان نہیں کیا۔ مجھے یہ بھی نہیں لگتا کہ میں نے اسے پریشان کیا ہے۔ ہمارے پاس کام کے مختلف منظرنامے ہیں۔ اسے اپنا کردار ادا کرنا تھا اور مجھے اپنا کردار ادا کرنا تھا۔ میدان میں وہ میری بیٹی نہیں ہے اور میں اس کی ماں نہیں ہوں۔‘ ورنہ سلیمہ کو اپنی بیٹی کی کامیابیوں پر بے حد فخر ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سلیمہ نے کہا، ’میں ہمیشہ کائنات کو کہتی ہوں کہ وہ میرا خواب جی رہی ہے۔ اسے پاکستان کے لیے کھیلنے کا میرا خواب پورا کرنا ہے۔ یہ میرے لیے، میرے خاندان اور دوستوں کے لیے بہت فخر کی بات ہے۔ اسے اپنے والد کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ ہم اس کے خوابوں کے درمیان کبھی نہیں آئے۔‘

’جب اس نے پہلی بار پاکستان بلیزر پہنا تو میری آنکھوں میں آنسو آگئے، یہ ہر ماں کے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ اس کا بچہ قومی ٹیم کی نمائندگی کر رہا ہے۔‘

اس کے خاندان میں جس طرح سے معاملات چل رہے ہیں اس سے سلیمہ کو یقین ہوتا ہے کہ ان کے ملک کی خواتین کے لیے کھیلوں میں کیریئر بنانا ممکن ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں لوگوں سے کہنا چاہتی ہوں کہ وہ اپنی بیٹیوں کی حمایت جاری رکھیں۔ ’انہیں وہ کرنے دیں جو وہ کرنا چاہتی ہیں۔ مردوں کو خواتین کی طرح مسائل نہیں ہیں، خاص طور پر بنگلہ دیش اور پاکستان جیسے ایشیائی ممالک میں۔ اگر وہ اپنی بیٹیوں، بیویوں اور ماؤں پر بھروسہ کریں گے تو وہ خاندان کی عزت بڑھائیں گے۔

’میں خوش ہوں کہ میرا ایک شوہر ہے جو ہمیشہ میرا اور کائنات کا ساتھ دیتا ہے۔ اس کا شوہر بھی اس کا ساتھ دیتا ہے۔ اگر کوئی باپ بیٹی کا ساتھ دے تو وہ باہر جا کر بڑے دل سے کھیل سکتی ہے، کہ مجھے اپنے والد کی پشت پناہی حاصل ہے۔ وہ اسے سب کچھ دے دے گی۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ