پی ٹی آئی کا استعفوں پر ’ریلیف‘ کے لیے عدالت سے رجوع

پی ٹی آئی کے ان دس ارکان قومی اسمبلی نے استعفوں کے معاملے پر ریلیف لینے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے جن کے استعفے سپیکر نے منظور کر لیے تھے۔

پی ٹی آئی ارکان نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے استدعا کی ہے کہ سپیکر قومی اسمبلی کو استعفوں کی منظوری کے حوالے سے اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرنے کی ہدایت کی جائے (فائل فوٹو/ اے ایف پی)

پاکستان تحریک انصاف کے ارکان نے اسمبلی استعفوں کی منظوری کے حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے۔

ان ارکان نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے استدعا کی ہے کہ سپیکر قومی اسمبلی کو استعفوں کی منظوری کے حوالے سے اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرنے کی ہدایت کی جائے۔

درخواست میں عدالت سے یہ بھی استدعا کی گئی کہ وہ سپیکر قومی اسمبلی کو درخواست گزاروں اور دیگر 112 ارکان کو بلانے کا حکم بھی دے تاکہ سپیکر تحقیق کرسکے کہ جن ارکان نے استعفے دیے ہیں انہوں نے آرٹیکل 64 کے تحت ایسا کیا ہے۔

قانون کے مطابق درخواست گزاروں کو سنے بغیر سپیکر استعفوں سے متعلق اطمینان نہیں کر سکتا۔

پی ٹی آئی کے ان دس ارکان قومی اسمبلی نے استعفوں کے معاملے پر ریلیف لینے کے لیے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا ہے جن کے استعفے سپیکر نے منظور کر لیے تھے۔

درخواست میں ان ارکان نے موقف اختیار کیا ہے کہ کہ انہوں نے سپیکر کے سامنے پیش ہو کر یہ تسلیم نہیں کیا کہ استعفیٰ دیا ہے جب کہ استعفے خالصتاً سیاسی بنیاد اور پارٹی ہدایات پر دیے گئے تھے جنہیں قانون کی نظر میں استعفیٰ نہیں کہا جا سکتا۔ اس لیے سپیکر ان کے استعفے منظور نہیں کر سکتے۔

پی ٹی آئی ارکان قومی اسمبلی نے عدالت میں دی گئی درخواست میں یہ بھی کہا ہے کہ استعفوں سے متعلق سپیکر قومی اسمبلی انہیں بلا کر سنیں۔

ان ارکان نے پی ٹی آئی کے کراچی سے رکن اسمبلی شکور شاد کے کیس کی طرح ریلیف لینے کے لیے استدعا کی ہے۔

ارکان قومی اسمبلی نے درخواست میں کہا کہ ابھی الیکشن کا اعلان نہیں ہوا، 123 ارکان کے استعفوں کو ایک ساتھ دیکھا بھی نہیں گیا اس لیے درخواست گزاروں کا استعفوں سے متعلق خط مؤثر نہیں رہا۔

درخواست کے مطابق درخواست گزار سپیکر کے سامنے پیش نہیں ہوئے، اس لیے ان کے استعفے منظور نہیں ہوئے۔

ہائی کورٹ میں استعفوں سے متعلق درخواست دینے والوں میں علی محمد خان، فضل محمد خان، شوکت علی، ڈاکٹر شیریں مزاری، ڈاکٹر شاندانہ گلزار، فخر زمان خان، فرخ حبیب، اعجاز شاہ، جمیل احمد اور محمد اکرم شامل ہیں۔

پی ٹی آئی ارکان کی جانب سے درخواست میں کہا گیا ہے کہ استعفوں سے متعلق 25 ستمبر کو سوشل میڈیا پر ’ایک آڈیو لیک‘ ہوئی جس میں وزیراعظم، کابینہ ارکان اور مسلم لیگ ن کے رہنماؤں کو نواز شریف سے استعفوں کی منظوری لینے کا کہتے سنا جا سکتا ہے۔

’اس آڈیو کا ریکارڈ اور ٹرانسکرپٹ بھی پٹیشن کے ساتھ جمع کرایا گیا ہے۔ اس آڈیو لیک کی تردید نہیں کی گئی بلکہ 27 ستمبر کی پریس کانفرنس میں اسے تسلیم کیا گیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

درخواست میں کہا گیا ہے کہ ’اس سے ان کے مؤقف کی تائید ہوتی ہے کہ ان کے استعفوں کو قانونی طور پر درست انداز میں پراسیس نہیں کیا گیا۔ سپیکر کے سامنے پیش نہ ہونے پر 112 ارکان اسمبلی کے استعفے تاحال منظور نہیں کیے گئے۔ استعفے خالصتاً سیاسی بنیاد اور پارٹی ہدایات پر دیے گئے تھے جنہیں قانون کی نظر میں استعفیٰ نہیں کہا جا سکتا۔‘

درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ استعفوں کا مقصد تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں بننے والی حکومت کو الیکشن کی تاریخ کے اعلان پر راضی کرانا تھا۔ انتخابات پر مجبور کرنے کے لیے دیے گئے استعفوں کو قانون کی نظر میں استعفیٰ نہیں مانا جا سکتا۔ سپیکر نے قانون پر عمل درآمد کیے بغیر 12 ارکان کے استعفے منظور کیے جو غیر آئینی اقدام ہے۔

پی ٹی آئی ارکان کی جانب سے دی گئی درخواست میں سپیکر قومی اسمبلی، سیکرٹری قومی اسمبلی، الیکشن کمیشن اور وفاق کو بذریعہ سیکرٹری کابینہ ڈویژن فریق بنایا گیا ہے۔

اس موقع پر پی ٹی آئی کے وکیل فیصل چودھری، پی ٹی آئی رہنما علی محمد خان، فرخ حبیب، جمیل احمد اور شاندانہ گلزار اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچے۔

تاہم عدالت نے استعفوں کی منظوری سے متعلق درخواست جمعرات کے لیے مقرر کر دی جس کی سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ کریں گے۔

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں شہباز گل اور ڈاکٹر یاسمین راشد نے لاہور میں نیوز کانفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ن لیگ بار بار عورت کارڈ استعمال کرتی رہی ہے حالانکہ یہ جماعت خود خواتین پر تشدد کرتی رہی ہے۔‘

شہباز گل نے کہا کہ ’یاسمین راشد پر تشدد کیا گیا اس لیے مریم نواز کو ذمہ داری لینا ہو گی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست