محبت میں حائل جنگ: ’جس کے لیے سب کچھ چھوڑا اسی کو چھوڑنا پڑا‘

انڈیا سے تعلق رکھنے والی سفینہ کو موٹرسائیکل چلانے کے شوق نے اپنا ملک چھوڑ کر یوکرین پہنچایا اور پھر اسی شوق کی بدولت وہ اپنے شوہر ولاد سے ملیں۔

یہ کہانی ہے انڈیا کے شہر بنگلور سے تعلق رکھنے والی سفینہ کی، جو پیشے کے اعتبار سے تو آئی ٹی کی ماہر ہیں مگر شوق ان کا موٹرسائیکل چلانا ہے جس نے انہیں اپنا ملک چھوڑ کر یوکرین تک پہنچایا اور پھر اسی شوق کی بدولت وہ اپنے شوہر ولاد سے ملیں۔

یوکرین سے تعلق رکھنے والے ولاد نے سفینہ سے متاثر ہو کر اسلام کا مطالعہ شروع کیا اور پھر اسلام قبول کر کے سفینہ سے شادی کر لی۔ مگر یوکرین میں شروع ہونے والی جنگ ان دونوں کی محبت کی دشمن نکلی۔

سفینہ کو یوکرین میں ایک موٹرسائیکل گروپ کے بارے میں انسٹاگرام کے ذریعے اس وقت علم ہوا جب اس گروپ کے چند ارکان اپنا لائیو پروگرام کر رہے تھے۔ اسی گروپ میں سفینہ کے شوہر ولاد بھی شامل تھے۔

تب ہی سفینہ نے اپنی خواہش کا اظہار ان سے کیا اور پھر انہوں نے سفینہ کو یوکرین پہنچانے کا بندوبست کیا۔

سفینہ دس دن کے لیے یوکرین گئیں جہاں انہوں نے ولاد کے ساتھ موٹر سائیکل پر یوکرین کے مختلف شہروں کا سفر کیا اور ان ہی دس دنوں میں ولاد اور سفینہ نے ایک دوسرے کو جانا۔

ولاد نے سفینہ کے یوکرین آنے سے قبل ہی اسلام کا مطالعہ شروع کر دیا تھا اور وہ اسلام قبول کرنے میں دلچسپی رکھتے تھے۔

یہی وجہ تھی کہ جب یوکرین سے واپسی والے دن فلائٹ سے کچھ دیر قبل ولاد نے سفینہ سے شادی کی خواہش کا اظہار کیا تو سفینہ نے اسے فوراً ہی قبول کرلیا اور ولاد کی طرف سے دی گئی انگوٹھی اپنی انگلی میں سجا کر جہاز میں واپسی کے لیے سوار ہوگئیں۔

مگر سارے راستے وہ یہ سوچ سوچ کر پریشان ہوتی رہیں کہ گھر جاکر اپنے گھر والوں کو کیسے بتائیں گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سفر کے دوران کئی سوالات تھے جو سفینہ کو تنگ کر رہے تھے، انگوٹھی کی تصویر جہاز سے ہی سفینہ نے اپنی والدہ کو بھیج دی تھی جس پر ان کی والدہ نے انہیں تسلی دی کہ وہ واپس پہنچ جائیں تو پھر دیکھتے ہیں کہ کیا کرنا ہے؟

سفینہ اپنے ملک پہنچیں تو دیکھا کہ ان کی والدہ نے ان کے تمام رشتے داروں کو وہاں پہلے سے ہی جمع کر رکھا ہے۔ جہاں آپس میں بات چیت کے بعد سب اس شادی پر مان گئے۔

اس موقعے پر طے یہ پایا کہ سفینہ ولاد سے شادی کے لیے خود یوکرین جائیں گی کیونکہ انڈیا میں شادی کرنا تھوڑا مشکل تھا اور اس کے لیے انہیں چھ ماہ کا عرصہ درکار تھا۔

اسی لیے ولاد سے شادی کے بندھن میں بندھنے کے لیے سفینہ خود یوکرین پہنچیں، جہاں ولاد نے باقاعدہ مسجد میں جاکر اسلام قبول کیا اور اسی مسجد میں دونوں کا نکاح پڑھایا گیا۔

نکاح کے وقت مختلف زبانوں سے تعلق رکھنے والے پانچ مولوی حضرات وہاں موجود تھے جنھوں نے سفینہ کے والدین کی اجازت سے نکاح پڑھایا۔

یوں سفینہ اور ولاد کی نئی زندگی کا آغاز ہوا۔

نکاح کے فوراً بعد ہی سفینہ اور ولاد انڈیا پہنچے، جہاں بڑی دھوم دھام سے دونوں کا ولیمہ کیا گیا اور اس عرصے میں بھی دونوں بائیک پر ہی سارے انڈیا کی سیر کرتے رہے۔

واپس یوکرین جانے کے کچھ عرصے بعد سفینہ اور ولاد کے ہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی۔ سب بہت خوش تھے، سب کچھ بہت اچھا چل رہا تھا، سفینہ اور ولاد اپنے بیٹے کو اس کے نانا نانی سے ملوانے انڈیا لے جانا چاہتے تھے مگر ایسا نہ ہوسکا۔

کیونکہ سفینہ اور ولاد کی انڈیا کی فلائٹ 26 فروری 2022 کی تھی اور نکلنے سے دو دن پہلے یعنی 24 فروری کو یوکرین میں جنگ چھڑ گئی۔

جنگ کی وجہ سے سفینہ کو مجبوراً اپنے 11 ماہ کے بیٹے کو لے کر جان بچانے کے لیے اکیلے ہی یوکرین سے کسی محفوظ مقام کے لیے نکلنا پڑا۔

سفینہ یوکرین کو چھوڑنا نہیں چاہتی تھیں، وہ اپنی محبت کے ساتھ رہنا چاہتی تھیں اور اسی مقصد کے لیے انہوں نے اپنے شوہر کو بہت سمجھانے کی کوشش کی مگر اس وقت ولاد کو سفینہ اور اپنے بیٹے کی جان کی فکر تھی۔

اس طرح نہ چاہتے ہوئے بھی سفینہ کو یوکرین سے نکلنا پڑا اور وہ پولینڈ کے راستے جرمنی پہنچیں۔

سفینہ کو یوکرین چھوڑے اب تقریباً آٹھ ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ جرمن حکومت نے اگست کے مہینے میں دو ہفتوں کے لیے سفینہ اور ان کے بیٹے کو یوکرین جانے کی اجازت دی تھی اور سفینہ اپنے بیٹے کے ساتھ اپنے شوہر اور سسرال والوں سے مل کر آئی ہیں۔

مگر سفینہ کا کہنا ہے کہ ’میں اور میرا بیٹا انہیں بہت یاد کرتے ہیں اور میری دعا ہے کہ یہ جنگ جلد از جلد ختم ہو تاکہ ہم تینوں مل کر ہنسی خوشی اپنی زندگی پھر سے شروع کر سکیں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی