بلوچستان میں 62 ٹریڈ یونینز پر پابندی کی مخالفت

پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے صدر کے مطابق کسی بھی ادارے کے ملازمین کو آئی ایل او کے کنونشن اور پاکستان کے 1973 کے آئین کے تحت یونین سازی کا حق حاصل ہے۔

(بلوچستان ہائی کورٹ)

بلوچستان کے محکمہ لیبر نے 62 سرکاری، نیم سرکاری اور خود مختار اداروں کی ٹریڈ یونینز کی رجسٹریشن منسوخ کر دی ہے جس کے خلاف بلوچستان کی لیبر تنظیموں نے سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ 

محکمہ لیبر کی جانب سے جاری ہونے والے نوٹیفکیشن کے مطابق یہ اقدام بلوچستان ہائی کورٹ کے حکم کی روشنی میں عمل میں لایا گیا۔ محکمے کے مطابق مذکورہ ٹریڈ یونینز حکومت بلوچستان سرونٹ (کنڈکٹ) رولز 1979کے زمرے میں آنے والے ملازمین چلا رہے تھے۔ 

مذکورہ اقدام کو لیبر یونین کے نمائندوں نے عالمی اور ملکی قوانین کے برعکس قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ 

پاکستان سینٹرل مائنز لیبر فیڈریشن کے صدر لالہ سلطان محمد کے مطابق کسی بھی ادارے کے ملازمین کو آئی ایل او کے کنونشن اور پاکستان کے 1973 کے آئین کے تحت یونین سازی کا حق حاصل ہے۔ 

سلطان محمد نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ٹریڈ یونینز پر پابندی سے ملازمین اپنے حقوق سے محروم ہوجائیں گے اور معاشرہ غلامانہ دور کی طرف چلا جائے گا، افسر شاہی کا راج ہو جائے گا جو کسی بھی صورت میں معاشرے کے لیے سود مند نہیں۔‘ 

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے ہاں پہلے سے ہی بیورو کریسی طاقتور ہے اور اگر ملازمین کو حقوق کے لیے بات کرنے کا پلیٹ فارم میسر نہ ہو تو وہ کہاں جائیں گے اور کس سے فریاد کریں گے۔‘ 

یاد رہے کہ بلوچستان انڈسٹریل ایکٹ 2010 کے تحت صوبے میں ملازمین کو یونین سازی کا حق دیا گیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سلطان محمد کے مطابق: ’ہم عدالتوں کا احترام کرتے ہیں ہمیں معلوم ہے کہ آئین کے تحت، پولیس، ملٹری ملیشیا، فرنٹیئر کور، حکومت کے پریس جہاں اہم سرکاری دستاویزات شائع ہوتی ہیں، ہسپتال جہاں دماغی امراض کے مریض ہوتے ہیں وہاں یونین سازی نہیں ہوسکتی لیکن باقی جگہوں پر تو آئین نے اجازت دے رکھی ہے۔‘ 

’کسی بھی معامشرے کے فلاح و بہبود کے لیے ٹریڈ یونینز کا قیام ضروری ہے تاکہ چھوٹے ملازمین اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرسکیں، مذکورہ اقدام سے نہ صرف ملازمین اپنے حقوق سے محروم رہ جائیں گے بلکہ بیروزگاری میں بھی اضافہ ہوگا۔‘ 

لیبر یونین کے رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ ’ہمارے کسی بھی یونین کے احتجاج یا مظاہرے سے کبھی بھی حکومتی نظام متاثر نہیں ہوا بلکہ ہم  آئین کے دائرہ کار کے اندر رہ کر احتجاج کرتے رہے ہیں۔‘ 

سلطان محمد کے بقول پابندی کا شکار ہونے والی یونینز میں ایسے بھی شامل ہیں جن کے ورکرز خاکروب ہیں اب وہ کس طرح اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرسکیں گے جبکہ ان کے پاس یونین کا پلیٹ فارم ہی نہ ہوگا۔ 

واضح رہے کہ مذکورہ ٹریڈ یونینز کی رجسٹریشن منسوخ کرنے کا حکم بلوچستان ہائی کورٹ نے دیا ہے۔  

لیبر یونین کے رہنما سمجھتے ہیں کہ کسی بھی معاشرے کی ترقی کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہاں ملازمین کو اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنے کی آزادی ہو جس کا بہترین طریقہ یونین سازی ہے اور پاکستان میں 1973 کے آئین کی شق نمبر 17 نے انہیں  یہ حق دیا ہے۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان