کیا گنگولی کی صدارت ختم کرانے میں بی جے پی کا ہاتھ ہے؟

سارو گنگولی بحیثیت کرکٹر تو ایک کامیاب کیریئر گزار چکے ہیں اور بادشاہوں کی طرح رخصت ہوئے تھے لیکن انڈین کرکٹ بورڈ کی صدارت ان کے لیے کوئی اچھا اختتام نہ دے سکی۔

انڈیا کے سورو گنگولی 25 جولائی 2007 کو لوگبورو یونیورسٹی کے ای سی بی نیشنل اکیڈمی سینٹر میں انڈیا نیٹس سیزن کے دوران ورزش کرتے ہوئے ہیں (اے ایف پی/میتھیو لیوس)

انڈین کرکٹ کے سب سے کامیاب قرار دیے جانے والے کپتان سارو گنگولی کا ستارہ بھی زوال پذیر ہونے لگا ہے۔

50 سالہ سارو گنگولی جنہیں دادا کے نام سے پکارا جاتا ہے اور انڈین کرکٹ کو جدید طرز میں ڈھالنے کا کریڈٹ دیا جاتا تھا، اب اپنے کیرئیر کی دوسری اننگز میں مایوس کن پرفارمنس دے رہے ہیں۔

وہ بحیثیت کرکٹر تو ایک کامیاب کیریئر گزار چکے ہیں اور بادشاہوں کی طرح رخصت ہوئے تھے لیکن انڈین کرکٹ بورڈ کی صدارت ان کے لیے کوئی اچھا اختتام نہ دے سکی۔

گنگولی تین سال قبل بھارتی کرکٹ بورڈ (بی سی سی آئی)  کے صدر بنے تھے جب ان سے قبل دو سال تک سپریم کورٹ آف انڈیا کے فیصلے کے تحت سیکے کھنہ رہے صدر رہے۔ سپریم کورٹ نے ان سے قبل بننے والے صدر انوراگ ٹھاکر کو لودھا کمیشن کی سفارشات پر عمل نہ کرنےکے باعث معزول کر دیا تھا۔

گنگولی اس وقت بنگال کرکٹ ایسوسی ایشن کے صدر تھے اور انوراگ ٹھاکر کی حمایت کرنے میں پیش پیش تھے حالانکہ انوراگ ٹھاکر کا انتخاب خالصتاً سیاسی بنیادوں پر حکمران جماعت بے جے پی کی مداخلت پر ہوا تھا۔

گنگولی کا انتخاب بھی ایک سیاسی عمل کو قبول کرنے کے انعام کے طور پر ہوا تھا کیونکہ جب گنگولی نے بی سی سی آئی کے صدر بننے کی خواہش کا اظہار کیا تھا تو بی جے پی نے اپنے سرکردہ رہنما امیت شاہ کے 32 سالہ بیٹے جے شاہ کو سکریٹری بنانے کی شرط رکھی تھی۔

جے شاہ جو کم عمری میں ہی گجرات کرکٹ ایسوسی ایشن کے صدر بن گئے تھے اس وقت ایشین کرکٹ بورڈ کے صدر بھی ہیں۔

اپنے دور کے سب سے مضبوط کپتان گنگولی کی انتظامی تربیت ان کے استاد اور بی سی سی آئی کے سابق صدر جگموہن ڈالمیا نے کی تھی۔

ڈالمیا بھی ایک طاقت ور صدر تھے اور ان کی حمایت کے باعث ہی گنگولی کا انتظامی کیریئر شروع ہوا تھا۔ دونوں کے بنگال سے تعلق رکھنے کے باعث بہت ذہنی ہم آہنگی تھی۔

سارو گنگولی کے دور صدارت میں حکمران پارٹی بی جے پی کے سرکردہ افراد سے اختلافات پیدا ہوئے جبکہ گنگولی سکریٹری جے شاہ کی خود مختاری سے بھی خوش نہیں تھے۔

جے شاہ جنہیں اپنے باپ امیت شاہ کی طاقت کے باعث خصوصی مقام حاصل ہے، بورڈ کو اپنی مملکت سمجھتے ہیں اور من مانی کرتے ہیں۔

سارو گنگولی سے اختلاف کے باعث کئی کھلاڑیوں کا کیرئیر ختم ہوا اور بہت سے کوچز اپنا دورانیہ پورا نہ کر سکے۔ ان پر بھارتی کرکٹ کے سب سے مضبوط گڑھ مہاراشٹر کو نظر انداز کرنے کا الزام بھی لگایا جاتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری طرف بھارتی ٹیم میں روی شاستری کے کوچ بنانے پر بھی ان کے اور کوہلی کے اختلافات سامنے آئے تھے۔ گنگولی انیل کمبلےکو کوچ رکھنا چاہتے تھے جبکہ ویراٹ کوہلی نے روی شاستری کو کوچ بنانے کا الٹی میٹم دیا ہوا تھا۔

بی جے پی کی حریف جماعت اور ریاست بنگال کی حکمران پارٹی آل انڈیا ترنامول کانگریس نے الزام لگایا ہے کہ گنگولی پر بے جی پی میں شمولیت کا دباؤ تھا اور ان کے شامل نہ ہونے پر انہیں دوسری مدت کے لیے منتخب نہیں کیا گیا۔

بی جے پی نے اس کی تردید کی ہے اور اسے ترنامول کانگریس کا سیاسی حربہ قرار دیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ گنگولی مودی اور ان کے حواریوں کے ناز نہیں اٹھاتے تھے اور مودی کی الیکشن مہم سے دور رہے تھے، جب اکثر سابق کرکٹرز حصہ لے رہے تھے۔

آئی پی ایل کی صدارت بھی گنگولی اور جے شاہ کے درمیان اختلافات کی وجہ بنی تھی۔

گنگولی کی جگہ 1983 ورلڈ کپ کی فاتح ٹیم کے رکن 67 سالہ راجر بنی کا انتخاب کیا گیا ہے جو اگلے ہفتے ایک رسمی الیکشن کے ذریعے صدر بن جائیں گے۔

تاہم جے شاہ اپنی جگہ برقرار رہیں گے اور قرائن کے مطابق راجر بنی ایک ربر سٹیمپ صدر ہوں گے جبکہ سارے اختیارات جے شاہ کے پاس ہوں گے۔

تکلیف دہ بات یہ ہے کہ بورڈ نے آئی سی سی کی صدارت کے لیے بھی گنگولی کی حمایت کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ گنگولی آئندہ صدربننے والے تھے لیکن اب شاید نہ بن سکیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ