ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں ’فل سالٹ کا اسالٹ‘

اگر یہ کہا جائے کہ انگلینڈ کے بلے باز فل سالٹ نے جمعے کی شام ٹی ٹوئنٹی میچ میں پاکستانی بولنگ کا قتل عام کیا تو غلط نہیں ہوگا۔

انگلینڈ کے بلے باز فل سالٹ کا 30 ستمبر 2022 کو لاہور کے قذافی سٹیڈیم میں  ایک انداز (اے ایف پی)

برا ہو آئی سی سی رینکنگ سسٹم کا جس نے ہمارے بلے بازوں کو رنز کے سہارے پہلا اور دوسرا بلے باز تو بنا دیا لیکن ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کی اصل روح چھین لی۔ 

رینکنگ کے چکر میں ایسے ڈوبے کہ یاد ہی نہیں رہا اس دما دم کرکٹ میں کتنے رنز کتنی گیندوں پر کرنے اہم ہیں۔

یہ کہا جائے کہ فل سالٹ نے جمعے کی شام پاکستانی بولنگ کا قتل عام کیا تو غلط نہیں ہوگا۔ 

ان کی بلے بازی ایسی تھی کہ جیسے بازنطینی جنگجوؤں کی تلوار نکل آئی ہو اور جو سامنے آیا وہ تہہ تیغ ہو گیا۔

سالٹ نے جس تیزی سے حملے شروع کیے، انگلش میڈیا چیخ اٹھا ۔۔۔۔ سالٹ کا اسالٹ!

فل سالٹ نے جس طرح پہلی گیند محمد نواز کی کھیلی اور سیدھے بیٹ سے ضربیں لگانا شروع کیں، ایسا لگ رہا تھا کہ وہ دو دن سےکریز پر ہیں۔

اعتماد ایسا کہ بولر گھبرا جائے اور شاٹ کی طاقت ایسی کہ بابر اعظم جیسا  فیلڈر روکنے نہ پائے۔

سالٹ کے بیٹ سے گیند ٹکرا کر خود اپنی جگہ ڈھونڈ رہی تھی  اور رن بنا رہی تھی۔

شاہنواز دہانی کا اوور ختم ہونا مشکل ہوگیا۔ رنز تھے کہ رک ہی نہیں رہے تھے۔

وسیم کا بھی وہی حشر ہوا جو دہانی کا اور برا تو عامر جمال کے ساتھ ہوا، ابھی ڈیبیو کی مہندی بھی نہیں اتری تھی کہ سالٹ نے ساری چمک چھین لی۔

فل سالٹ کا اعتماد قابل دید تھا۔ وہ جس روانی سے بیٹ چلا رہے تھے ایسا لگ رہا تھا اپنے گھر کے پائیں باغ میں بچوں کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ نہ قدموں کو زحمت اور نہ کسی شاٹ کے وقت پر نہ لگنے کا غم۔

بس ادھر گیند بولر کے ہاتھ سے نکلی اور ادھر بیٹ گھوما اور گیند باؤنڈری کے پار۔

سالٹ جب کیپنگ کے دوران وکٹوں کے پیچھے سے بابر اعظم کی بڑی اننگ دیکھ رہے ہوں گے تو کہہ رہے ہوں گے ’بابر رنز کرنا بڑی بات نہیں۔ بات تو تب ہے کہ بولر تمھاری دھواں دھار بیٹنگ سے گھبرا جائے۔‘

سالٹ نے جو کہا وہ اپنی بلے بازی میں کرکے دکھا دیا اور بتا دیا کہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ اسے کہتے ہیں۔

پاکستان کا سیریز میں برتری کا خمار تو اتر گیا ہے  لیکن اس طرز کی کرکٹ کو سمجھنا اور کھیلنا ابھی باقی ہے۔

ایک بلے باز کا ناز اس کا اعتماد اور رنز بنانے کی تڑپ ہوتی ہے۔ جب اس کی تڑپ کلائیوں کی گرفت سے لکڑی کے اس دو گز کے ٹکڑے میں پہنچتی ہے تو وہ بے نیام تلوار بن جاتا ہے۔ جس کا کام بس لپکنا جھپکنا جھپک کر پکڑنا اور کاٹ دینا ہوتا ہے۔

سالٹ کی اننگ ایسی ہی داستان کا عملی رنگ تھی۔ تجربے کرنے سے ڈرنے والے جب زبان خلق سے ڈر کر تجربے کرتے ہیں تو اوندھے منہ گر پڑتے ہیں۔ کچھ یہی حال پاکستان کی بیٹنگ کا ہوا۔ جب کمزور ٹیمیں تھیں تو حارث راہ دیکھتے رہے اور جب کھلایا تو اپنے کردار سے آگاہ نہیں تھے۔

انگلینڈ کے دوسری لائن کے بولرز نے پہلے میچ سے باؤنسرز پر پاکستانی بلے بازوں کو رکھ لیا ہے۔ رینکنگ کا ڈھیر لگانے والوں کے سامنے جب کان کے قریب سے گزرتی ہوئی گیندیں آنے لگیں تو بھول گئے کہ ہک اور پل شاٹ کیسے کھیلتے ہیں۔ اپنے اسلاف کی روایات سے ہٹ کر باؤنسر کھیلنے کے طریقوں نے ورلڈ کپ سے پہلے ہی آسٹریلین وکٹوں پر ناکامی کی  نوید دے دی ہے۔

بابر اعظم کے کھاتے میں رنز کا انبار بھی ہے اور ریکارڈز کا ڈھیر بھی، لیکن ہر اننگ کے بڑے سکور کے پیچھے کمزور سٹرائیک ریٹ بھی ہے۔

فل سالٹ نے 88 رنز کے لیے صرف 41 گیندیں کھیلی لیکن بابر اعظم نے 87 رنز کے لیے 59 گیندیں۔

افتخار احمد اور حیدر علی نے بابر کی بچی ہوئی گیندوں پر ہاتھ صاف کرکے ٹیم کا سکور سست رکھنے کی بھرپور کوشش کی، تاکہ نہ کوئی آئے اور نہ رنز بنائے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ٹیم جیتے یا ہارے، سکور کارڈ پر تو رنز نظر آئیں گے۔ یہ وہ فرق ہے جو دونوں ٹیموں میں ہے۔

ایک میں کھلاڑی حملے کی کیفییت میں ہیں اور دوسری کے کھلاڑی دفاع میں۔

ایک میں جان دینے کا خوف نہیں دوسری میں جان بچانے کی تگ و دو!

کرکٹ نہ تو جنگ ہے اور نہ جنگ کا میدان۔ اس کا حسن اس کا ہر لمحہ رنگ بدلنا ہے لیکن کھیل کی جدت یہ ہے کہ مخالف کو سرنہ چڑھنے دو اور حملہ کرنے کا انتظار نہ کرو۔

بس یہی ایک سوچ ہے جسے فل سالٹ، ایلکس ہیلز اور ڈیوڈ ملان نے اپنایا اور لاہور کی بھیگی بھیگی شام میں جب  شبنمی قطرے فضا سے زمین کا رخ کر رہے تھے تو ان بلے بازوں نے بابر اعظم اینڈ کمپنی کو سمجھا دیا کہ آپ جو کرکٹ کھیل رہے ہیں، اس انداز کو زمانہ بیت گیا ہے۔

اب آج کی کرکٹ یہ ہے جو ہم نے چھٹے میچ میں کھیلی ہے۔

جمعے کی شام صرف ایک میچ نہیں تھا بلکہ سیکھنے کے لیے ایک کلاس تھی جس نے برق رفتار کرکٹ کے طور طریقے سمجھا دیے۔

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ