بلقیس بانو کیس: مجرموں کی رہائی پر مودی کو شدید تنقید کا سامنا

انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کی سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے رہا کیے گئے مجرموں کے ساتھ ’ہیرو‘ جیسا سلوک برتنے کو ’شرمناک‘ قرار دیا جا رہا ہے۔

23 اگست 2022 کو ممبئی میں گجرات میں 2002 کے فرقہ وارانہ فسادات کے دوران بلقیس بانو کا گینگ ریپ کرنے والے مجرموں کی رہائی کے خلاف احتجاج (اے ایف پی)

انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کو ’ریپ کرنے والوں کی طرف داری کرنے‘ پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے، جو ان کی مرکزی حکومت کی جانب سے مسلم خاتون بلقیس بانو کے ساتھ گینگ ریپ اور ان کے خاندان کے کئی افراد کو قتل کرنے والے 11 سزا یافتہ مجرموں کی قبل از وقت رہائی کی منظوری دیے جانے کے بعد شروع ہوئی۔

گجرات کی ریاستی حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی دستاویزات کے مطابق وزیر اعظم مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکومت نے پیر کو 2002 کے گجرات فسادات کے دوران بلقیس بانو اور ان کے خاندان کے 14 افراد پر حملہ کرنے والے بلوائیوں میں شامل 11 مجرموں کو رہا کرنے کی منظوری دی ہے۔

انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کی سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے رہا کیے گئے مجرموں کے ساتھ ’ہیرو‘ جیسا سلوک برتنے کو ’شرمناک‘ قرار دیا جا رہا ہے۔

اپوزیشن جماعت کانگریس کے رہنما راہل گاندھی نے مرکزی حکومت کے اس فیصلے کے لیے نریندر مودی پر تنقید کی ہے۔ مودی حکومت نے برسوں پہلے بچیوں کی فلاح کے لیے ایک فلیگ شپ سکیم شروع کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم اپنی تقاریر میں خواتین کے احترام کی بات تو کرتے ہیں لیکن ان کا عملی طور پر ایسا نہیں کرتے۔

راہل گاندھی نے اپنی ٹویٹ میں لکھا: ’وہ لال قلعے پر اپنی تقریر میں خواتین کے احترام کی بات کرتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ ریپ کرنے والوں کے ساتھ ہیں۔ وزیراعظم کے وعدوں اور نیت میں فرق واضح ہے۔ انہوں نے خواتین کو دھوکہ دیا ہے۔‘

خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی سماجی کارکن کویتا کرشنن نے کہا کہ نریندر مودی اور ان کے وزرا 2002 سے 2022 تک ’مسلم خواتین کا ریپ کرنے والوں اور قاتلوں کو انعام دے رہے ہیں۔‘

بلقیس بانو کیس میں ریپ اور قتل کے جرم میں عمر قید کی سزا کاٹنے والے 11 مجرموں کو  ملک کے یوم آزادی یعنی 15 اگست کو رہا کر دیا گیا تھا۔ اس سے کچھ دیر قبل وزیر اعظم مودی لال قلعہ کی فصیل سے کی گئی اپنی سالانہ تقریر میں خواتین کو بااختیار بنانے کی بات کر رہے تھے۔

بلقیس بانو کے اہل خانہ سمیت بہت سے افراد ان مجرموں کے ہیروز کی طرح استقبال کرنے اور انہیں مٹھائی پیش کرنے اور ہار پہنائے جانے پر صدمے میں ہیں۔

اس فیصلے نے ملک میں بڑے پیمانے پر غم و غصے کی لہر دوڑا دی جہاں چھ ہزار سے زیادہ سماجی کارکنوں، تاریخ دانوں اور شہریوں نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا جس میں اس فیصلے کو ’انصاف کی سنگین خلاف ورزی‘ قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ سے اس رہائی کے حکم کو کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کیا۔

انڈیا کی مغربی ریاست گجرات جہاں مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے پیر کو سپریم کورٹ کو دستاویزات پیش کرتے ہوئے بتایا کہ وزیر اعظم مودی کے معاون امت شاہ کی سربراہی میں مرکزی وزارت داخلہ نے مجرموں کی فاسٹ ٹریک رہائی کی منظوری دے دی ہے۔

یہ بیان حلفی قیدیوں کو دی گئی معافی کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کے جواب میں عدالت میں داخل کیا گیا ہے۔

ریاستی حکومت نے کہا کہ اس نے ان افراد کی جلد رہائی کا فیصلہ کیا ہے کیوں کہ ’انہوں نے 14 سال اور اس سے زیادہ عمر کی قید مکمل کر لی تھی اور ان کا جیل میں رویہ ’اچھا‘ پایا گیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ریاستی حکومت کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’مرکزی حکومت نے اس حوالے سے اپنی منظوری سے آگاہ کر دیا ہے۔‘

دستاویزات میں کہا گیا ہے انڈیا کی داخلی تفتیشی ادارے سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) نے گذشتہ سال ہی قیدیوں کی رہائی کی مخالفت کی تھی۔

سی بی آئی کے ساتھ ساتھ، پولیس، سول جج اور سیشن کورٹ نے بھی اس رہائی کی مخالفت کی تھی۔ ایجنسیوں نے کہا کہ یہ افراد ’گھناؤنے، سنگین اور بدترین‘ جرائم میں ملوث پائے گئے تھے۔

ایک خصوصی عدالت کے جج نے کہا تھا کہ یہ نفرت پر مبنی جرم کی بدترین شکل ہے۔ اس معاملے میں چھوٹے بچوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔

انڈیا کے نشریاتی ادارے این ڈی ٹی وی کے مطابق ریاستی حکومت کی طرف سے مجرموں کو رہا کرنے کی درخواست کو مرکزی وزارت داخلہ نے دو ہفتوں کے اندر منظور کر لیا تھا۔

وکلا کے مطابق سپریم کورٹ نے، جو 29 نومبر کو سزا کی معافی کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت کرے گی، اس رہائی میں کلیدی کردار ادا کیا۔

عدالت عظمیٰ نے پہلے ہی حکام کو 1992 کی معافی کی پالیسی کے تحت قیدیوں کی نرمی کی درخواست پر غور کرنے کی ہدایت کی تھی۔

تین مارچ 2002 کو جب بلقیس بانو کی عمر 21 سال تھی اور وہ پانچ ماہ کی حاملہ تھیں انہیں گجرات کے ضلع داہود میں گینگ ریپ کا نشانہ بنایا گیا اور ان کے خاندان کے 14 افراد بشمول ان کی تین سالہ بیٹی کو بےدردی سے قتل کر دیا گیا۔

مجرموں کی رہائی کے بعد بلقیس بانو نے کہا کہ اس فیصلے سے عدلیہ اور انصاف پر ان کا اعتماد متزلزل ہو گیا ہے۔

انہوں نے کہا: ’جب میں نے سنا کہ جن مجرموں نے میرے خاندان اور میری زندگی کو تباہ کیا تھا وہ آزاد ہو گئے ہیں تو میرے پاس اسے بیان کرنے کے لیے الفاظ ہی ختم ہو گئے۔ میں ابھی تک احساس سے محروم ہوں۔‘

ان کے بقول: ’کسی بھی خاتون کے لیے اس طرح انصاف کیسے ختم ہو سکتا ہے؟ میں نے اپنے وطن کی اعلیٰ ترین عدالتوں پر بھروسہ کیا۔ مجھے یہاں کے نظام پر بھروسہ تھا اور میں آہستہ آہستہ اس صدمے کے ساتھ جینا سیکھ رہی تھی لیکن ان مجرموں کی رہائی نے مجھ سے میرا سکون چھین لیا ہے اور انصاف پر میرا یقین ٹوٹ گیا ہے۔‘

مودی حکومت کے دیگر ناقدین نے سوشل میڈیا پر کہا ہے کہ یہ فیصلہ سیاست، مذہبی امتیاز اور عورت سے نفرت سے جڑا ہوا ہے۔

بہت سے لوگوں نے حکومت پر کلیدی تحقیقاتی ایجنسی اور دیگر اہلکاروں کے خلاف جانے کا الزام لگایا جنہوں نے مجرموں کی رہائی کی مخالفت کی تھی۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین