سکھر کے چھ بچے، دریا کھا گیا یا آسماں؟

تین بھائیوں سمیت 11 سے 16 سال کی عمر کے چھ بچے جمعے کی شام سے پراسرار طور پر لاپتہ ہیں، جن کے کپڑے اور جوتے دریائے سندھ کے کنارے جھاڑیوں سے برآمد ہوئے۔

جمعے کی شام سے لاپتہ ان بچوں کی عمریں 11 سے 16 سال کے درمیان ہیں  (تصاویر:  امتیاز پھُلپوٹو)

سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر میں‌ دریائے سندھ کے قریب کوئنز روڈ پر واقع حماد پلازہ کے رہائشی تین بھائیوں سمیت 11 سے 16 سال کی عمر کے چھ بچے گذشتہ دو روز سے پراسرار طور پر لاپتہ ہیں اور ان کا تاحال سراغ نہیں مل سکا۔

سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) سکھر عرفان سموں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جمعے کی شام کو کرکٹ کھیلنے کے لیے گھر سے جانے والے گمشدہ بچوں کے ساتھ جانے والے ایک بچے کی اطلاع پر والدین نے پولیس سے رابطہ کیا، جس کے بعد بچوں کی تلاش شروع کی گئی۔

عرفان سموں کے مطابق لاپتہ ہونے والے بچوں کے کپڑے اور جوتے دریائے سندھ کے کنارے واقع زیرو پوائنٹ کے ساتھ جامع مسجد کے قریب جھاڑیوں سے ملے جن کی والدین نے شناخت کرلی کہ وہ کپڑے اور جوتے گمشدہ بچوں کے ہی ہیں۔

ایس ایس پی عرفان سموں کے مطابق: ’بظاہر تو یہی لگتا ہے کہ بچے نہانے کے لیے دریا میں اترے اور ڈوب گئے۔ ہم غوطہ خوروں کی مدد سے تلاش کر رہے ہیں مگر تاحال لاشیں نہیں مل سکیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید بتایا کہ ’دوسری جانب اس پہلو پر بھی تفتیش کی جارہی ہے کہ بچے نہاتے ہوئے ڈوب گئے یا پھر کوئی اور معاملہ ہے۔ سی سی ٹی وی فوٹیج میں بھی بچے دریا کی طرف اکیلے جاتے ہوئے دیکھے گئے۔‘

لاپتہ ہونے والے بچوں میں تین بھائیوں 13 سالہ احتشام، 12 سالہ احسان اور 11 سالہ حماد سمیت 11 سالہ عاصم اور سولہ سالہ قاسم شامل ہیں، عاصم اور قاسم بھی آپس میں بھائی تھے، جبکہ ان کا ایک دوست محمد انس بھی ان کے ہمراہ تھا۔

پولیس کے مطابق ریسکیو ٹیم کے غوطہ خوروں کو دریائے سندھ میں پانی کے تیز بہاؤ کے سبب سرچ آپریشن کے دوران مشکلات کا سامنا ہے۔

گمشدہ بچے محمد انس کے والد محمد ریاض نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انھیں کچھ سمجھ میں نہیں آرہا  کہ بچے کہاں غائب ہوگئے ہیں۔ ’ہوسکتا ہے کہ بچے پانی میں کہیں پھنس گئے ہوں۔ پولیس تو مکمل تعاون کر رہی ہے مگر ضلعی انتظامیہ نے کوئی تعاون نہیں کیا۔ دو دن گزرنے کے باوجود ابھی تک بچوں کا کوئی سراغ نہیں مل سکا ہے۔‘

دریائے سندھ سے اکثر و بیشتر لاشیں ملنے کے واقعات رپورٹ ہوتے رہتے ہیں۔ پولیس کے مطابق سکھر بیراج سے گذشتہ 11 دنوں میں دس نامعلوم افراد کی لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔ 

سندھی ٹی وی چینل ’کے ٹی این‘ سے منسلک سکھر کے صحافی جان محمد مہر کے مطابق ہر سال جولائی اور اگست میں جب دریائے سندھ میں پانی کی سطح بڑھ جاتی ہے تو یہاں سے کئی افراد کی لاشیں ملتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا: ’گڈو اور سکھر بیراج کے درمیان 200 کلومیٹر کا فاصلہ ہے اور اس علاقے میں دریائے سندھ کے دونوں اطراف کئی شہر اور گاؤں آباد ہیں۔ جہاں اگر کسی نے خودکشی کی ہو، کسی کو قتل کرکے لاش دریائے سندھ میں پھینک دی گئی ہو یا کوئی نہاتے ہوئے ڈوب جائے تو اکثر لاش نہیں ملتی اور دریا کے بہاؤ کے ساتھ سکھر بیراج تک پہنچ جاتی ہے جو بعد میں پانی چڑھنے پر ظاہر ہوتی ہے۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان