تحریک انصاف سے پی ڈی ایم حکومت: عوام کو اب تک کیا ملا؟

زیادہ تر اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں گذشتہ چھ ماہ کے دوران واضح اضافہ دکھائی دیا ہے اور عوام اب بھی ریلیف کے منتظر ہیں۔

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ڈالر کو 200 سے نیچے لانے اور آئندہ چند دنوں میں اچھی خبروں کی امید تو دلائی ہے مگر گذشتہ چھ ماہ میں عام کے لیے کچھ اچھی خبریں دکھائی نہیں دیں۔

مہنگائی سے پریشان عوام اب بھی اس بات کے منتظر ہیں کہ تقریباً چھ ماہ قبل اقتدار میں آنے سے قبل پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی اتحادی حکومت نے جو وعدے کیے تھے، وہ کب پورے ہوں گے۔

ان سطور میں ہم جانیں گے کہ گذشتہ چھ ماہ کے دوران سیاسی محاذ پر ہونے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں عوام کو روزمرہ زندگی میں کیا تبدیلیاں دیکھنی پڑیں۔

تحریک عدم اعتماد، حکومت کی تبدیلی اور نئی حکومت

رواں برس دس اپریل کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی اور عمران خان کو وزارت عظمیٰ کے منصب سے دستبردار  ہونا پڑا۔

تحریک عدم اعتماد کی ووٹنگ میں عمران خان کے خلاف 174 ووٹ پڑے تھے اور 11 اپریل کو مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف 174 ووٹ لے کر ہی پاکستان کے 23 ویں وزیراعظم منتخب ہوئے۔

عمران خان کے خلاف تحریک اعتماد کامیاب ہونے سے قبل حکومت کو اپوزیشن کی جانب سے ٹف ٹائم دیا گیا اور ایک ہی مہینے میں دو لانگ مارچ ہوئے جس میں سے ایک پاکستان پیپلز پارٹی کا تھا، جس کی قیادت بلاول بھٹو  زرداری نے کی اور دوسرا مہنگائی مکاؤ مارچ مسلم لیگ ن کی جانب سے کیا گیا جس کی قیادت مریم نواز اور حمزہ شہباز نے کی۔

دونوں جماعتیں اس وقت کی پی ٹی آئی حکومت کے خلاف مہنگائی بڑھانے کے معاملے پر شدید تنقید کر رہی تھیں۔

موجودہ حکومتی اتحاد کے تحت بننے والی کابینہ نے 19 اپریل 2022 کو حلف لیا اور اب اس کے چھ ماہ مکمل ہو چکے ہیں۔

کابینہ ڈویژن کے مطابق موجودہ وزیراعظم شہباز شریف کی کابینہ میں اس وقت 34 وفاقی وزرا، سات وزیر مملکت، چار مشیران اور 29 معاون خصوصی شامل ہیں۔

معیشت کے کیا حالات ہیں؟

اب ایک نظر ملکی معیشت پر بھی ڈالتے ہیں کہ اس وقت معاشی حالات کیا ہیں اور موجودہ حکومت کے آنے کے بعد عوام کو کوئی ریلیف ملا یا نہیں۔

تحریک انصاف کی حکومت دس اپریل کو ختم ہوئی تھی۔ پی ٹی آئی حکومت کے دوران مارچ 2022 میں ادارہ شماریات کے مطابق افراط زر کی شرح 9.1 فیصد تھی، تاہم ستمبر 2022 میں مسلم لیگ ن کی حکومت میں اس کی شرح میں اضافہ ہوا اور یہ 23.2 فیصد ہو چکی ہے۔

موجودہ حکومت کے چھ ماہ کے دوران ہی اگست کے مہینے میں مہنگائی کی شرح 27.3 فیصد تک آن پہنچی، جو 1975 کے بعد بلند ترین شرح تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہاں ہم اشیائے خوردونوش کے نرخوں کا تقابلی جائزہ لینے کی بھی کوشش کرتے ہیں کہ عوام پر مہنگائی کا کیا اثر ہوا یا انہیں کہیں کچھ ریلیف بھی ملا ہے۔

ادارہ شماریات کی جانب سے جاری کرہ نرخوں کے مطابق اسلام آباد شہر میں فروخت ہونے والی اشیا کے نرخ مارچ 2022 اور ستمبر 2022 میں کچھ یوں تھے۔

آٹے کا 20 کلو کا تھیلہ مارچ میں 1100 روپے میں فروخت ہو رہا تھا جبکہ ستمبر میں اس کی قیمت کم ہو کر 1095 روپے ہو گئی ہے۔

ایک کلو باسمتی چاول جو مارچ میں 112 روپے کلو تھا، اب اس کی قیمت 142 روپے کلو ہو چکی ہے۔

پانچ کلو آئل جو مارچ میں دو ہزار 287 روپے میں فروخت ہو رہا تھا، اب اس کی قیمت ستمبر میں دو ہزار 849 روپے ہوچکی ہے۔

دالوں کی قیمت میں اضافہ

گھروں میں پکنے والی دالوں کی قیمت میں واضح طور پر اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

دال مسور جو مارچ میں 223 روپے فی کلو دستیاب تھی، اب اس کی قیمت بڑھ کر 357 روپے فی کلو ہو چکی ہے۔

دال مونگ کی قیمت 165 روپے فی کلو سے بڑھ کر 241 روپے، دال ماش کی قیمت 289 روپے سے بڑھ کر 418 روپے اور دال چنا کی قیمت 179 روپے سے بڑھ کر 261 روپے ہو چکی ہے۔

چینی کی قیمت 89 روپے فی کلو سے بڑھ کر 93 روپے فی کلو ہوگئی۔

پیٹرول کی قیمت

یکم اپریل کو اوگرا کی جانب سے جاری ہونے والے نوٹیفکیشن کے مطابق پیٹرول کی قیمت 189 روپے تھی جبکہ 16 اکتوبر کو اس کی قیمت 222 روپے ہے۔

ڈالر اور زرمبادلہ کے ذخائر

سٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق آٹھ اپریل 2022 کو ڈالر کا ریٹ 184 روپے تھا اور سات اپریل کو جاری ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق زر مبادلہ کے ذخائر 17.48 ارب ڈالر تھے۔


20 اکتوبر کو ڈالر ریٹ 220 روپے اور 13 اکتوبر کو پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر 13.25 ارب ڈالر ہوگئے ہیں۔


اس  چھ ماہ کے عرصے دوران ڈالر 240 روپے تک بھی پہنچا اور ان ہی چھ ماہ کے دوران پاکستان کو آئی ایم ایف کی جانب سے 1.16  ارب ڈالر کی قسط بھی وصول ہوئی۔

بجلی کے نرخ

بجلی کے بلوں سے سلیب سسٹم کو ختم کر دیا گیا جس کے بعد پہلے یونٹ کے استعمال سے ہی بل 21 روپے 47 پیسہ فی یونٹ آرہا ہے۔

اس سے قبل سلیب سسٹم تھا جس میں پہلے 100 یونٹس، 100 سے 200 اور 200 سے زائد یونٹس پر مختلف چارجز لاگو ہوتے تھے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان