کیا اسحاق ڈار کا جادو آئی ایم ایف پر چل سکے گا؟

حقائق کے پیش نظر یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ اسحاق ڈار فوری طور پر آئی ایم ایف سے بڑی فیور لینے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے، لیکن دو سے تین ماہ میں بہتر معاشی کارکردگی دکھا کر اپنے مطالبات منوائے جا سکتے ہیں۔

جب سے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے آئی ایم ایف جانے کے لیے اڑان بھری ہے تب سے ڈالر بھی مسلسل اڑان بھر رہا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

عمر صفدر ایک معروف کاروباری شخصیت ہیں۔ وہ اسحاق ڈار کی صلاحیتوں کے معترف ہیں اور انہیں پاکستان کا سب سے بہتر وزیر خزانہ سمجھتے ہیں۔

ابتدائی دنوں میں اسحاق ڈار کے دعوؤں اور باڈی لینگویج سے انہیں معاشی استحکام کے حوالے سے کافی امید نظر آئی تھی، لیکن پچھلے چند دنوں سے ان کی پریشانی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جب سے اسحاق ڈار نے آئی ایم ایف جانے کے لیے اڑان بھری ہے تب سے ڈالر بھی مسلسل اڑان بھر رہا ہے۔

اس کے علاوہ آئی ایم ایف کی جانب سے حوصلہ افزا بیان نہ آنا، قرضوں پر ریلیف نہ ملنا اور سیلاب زدگان کے لیے مطلوبہ امداد حاصل نہ کر پانے کی وجہ سے وہ یہ سوچنے لگے ہیں کہ کیا اسحاق ڈار کا جادو آئی ایم پر چل پائے گا یا نہیں۔

 اس حوالے سے جاننے کے لیے جب میں نے ماہر معیشت ڈاکٹر فرخ سلیم صاحب سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ اسحاق ڈار آئی ایم ایف معاہدہ مکمل کرنے میں سنجیدہ ہیں، لیکن عالمی مالیاتی ادارے کے مشرق وسطیٰ اور وسط ایشیا کے لیے ڈائریکٹر جہاد آذور نے قرضوں کی ری شیڈولنگ کا براہ راست جواب دینے سے گریز کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ ابھی درست ڈیٹا اکٹھا کر رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان میں سیلاب کی وجہ سے ایمرجنسی کی صورت حال ہے اور آئی ایم ایف ابھی تک درست ڈیٹا اکٹھا نہیں کر پایا ہے۔ سیلاب کے نقصانات کے حوالے سے عالمی بینکوں اور اداروں کی جانب سے ڈی این اے  (Damage Need Assesment) رپورٹ جاری ہوتی ہے، جو ابھی تک تیار نہیں کی گئی ہے۔ جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف کو پاکستان کے ڈیٹا پر اعتماد نہیں ہے۔

ڈاکٹر فرخ سلیم کے مطابق: ’سیلاب متاثرین کے نام پر رعایتیں اور جزل سبسڈی ملنے کے امکانات کم ہیں۔ جہاد آذور نے پریس کانفرنس میں کہا کہ دنیا کے کئی علاقوں میں بغیر کسی واضح ہدف کے دی جانے والی مراعات یا سبسڈیز نے معیشتوں کو فائدے کی بجائے نقصان پہنچایا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ جس طرح کرونا وبا کے دوران جزل مراعات اور فنڈز مل گئے تھے، سیلاب زدگان کے لیے ایسے فنڈز ملنا اب ممکن نہیں ہے، لہذا سحاق ڈار سے زیادہ امیدیں لگانے والوں کو مایوسی ہو سکتی ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’جہاں تک بات ہے ڈالر ریٹ کی تو میرے مطابق حکومت نے روپے کی قدر بڑھانے کے لیے مارکیٹ میں ڈالرز پھینکے ہیں۔ سٹیٹ بینک کے ذخائر تین سو ملین ڈالرز کم ہوئے ہیں۔ پچھلے ہفتے قرض کی کوئی قسط واجب الادا نہیں تھی۔ سٹیٹ بینک نے بھی روایتی بیان جاری کیا کہ قرض کی ادائیگی کی گئی ہے۔

’کون سا قرض اور کس کو ادا کیا گیا، اس بارے میں تفصیل نہیں دی اور رپورٹ بھی سات اکتوبر کو جاری کی گئی ہے، جس سے شک و شبہات بڑھتے ہیں۔ جب پاؤنڈز اور یورو ڈالر کے مقابلے میں کمزور ہو رہے ہوں تو پاکستانی کرنسی کیسے مضبوط ہوسکتی ہے جبکہ سٹیٹ بینک کے ذخائر بھی تین سال کی کم ترین سطح پر آ گئے ہوں۔‘

ڈاکٹر فرخ سلیم کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف بھی اس سے آگاہ ہے۔ معاہدے کے مطابق روپے کی قدر میں غیر حقیقی گراوٹ ہو تو مارکیٹ میں ڈالر پھینک کر اسے کنٹرول کیا جا سکتا ہے، لیکن اگلی سہہ ماہی ختم ہونے سے پہلے وہ ڈالر سٹیٹ بینک ذخائر میں جمع کروانے ضروری ہیں۔ شاید وزیر خزانہ نے اس شق کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈالرز مارکیٹ میں پھینکے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اسحاق ڈار نے پچھلا آئی ایم ایف پروگرام بہت احسن طریقے سے مکمل کیا تھا، لیکن اس وقت حالات مختلف تھے۔ اس وقت معاشی حالات بہتر تھے اور امریکہ کو افغانستان میں پاکستان کی ضرورت بھی تھی۔ اب حالات مختلف ہیں۔

’قرضوں کا بوجھ ریڈ لائن کراس کر چکا ہے اور پچھلی حکومت نے آئی ایم ایف معاہدے کی سنگین خلاف ورزیاں کی ہیں، اس لیے انہیں پاکستان پر اعتبار نہیں رہا۔ ایسا لگتا ہے کہ اس مرتبہ اسحاق ڈار کا جادو ماضی کی طرح نہیں چل سکے گا۔ آئی ایم ایف بجلی، گیس اور تیل کی قیمتیں بڑھانے پر اصرار کر رہا ہے اور وزیر خزانہ تین ماہ تک قیمتیں نہ بڑھانے کی درخواست کر رہے ہیں، جو وزیراعظم نے آئی ایم ایف کی مینیجنگ ایڈیٹر سے امریکہ میں ملاقات کے دوران بھی کی تھی۔‘

انہوں نے کہا: ’اس درخواست پر مثبت ردعمل آتا ہے یا نہیں اس کا صحیح اندازہ آئی ایم ایف کے وفد کے پاکستانی دورے کے بعد لگایا جا سکتا ہے، جو نومبر کے پہلے ہفتے میں متوقع ہے۔ زیادہ امکانات یہ ہیں کہ پاکستان پر مزید معاشی دباؤ بڑھے گا۔ اسحاق ڈار کا موجودہ دورہ رسمی ہے۔ اس میں بڑے معاملات طے نہیں ہوں گے۔‘

کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جزل سیکرٹری ظفر پراچہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ڈالر کی قیمت جب ضرورت سے زیادہ بڑھتی یا کم ہوتی ہے تو مارکیٹ کے ردعمل سے وہ اپنی جگہ پر آ جاتا ہے۔ ڈالر جلد ہی اپنی اصل قیمت پر آکر رک جائے گا۔ موجودہ اضافہ 50 ہزار تک کی ایل سیز کی ادائیگی کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔

’میرا نہیں خیال کہ سٹیٹ بینک نے مارکیٹ میں ڈالر پھینکے ہیں۔ اسحاق ڈار ایک تجربہ کار وزیر خزانہ ہیں۔ انہیں بینکوں اور منی لانڈرز کو قابو کرنا آتا ہے۔ انہیں آئی ایم ایف سے ڈیل کرنے کا وسیع تجربہ ہے اور ایسا لگتا ہے کہ آئی ایم ایف پر بھی اسحاق ڈار کا جادو چل جائے گا اور وہ اپنی گزارشات منوانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ سیلاب زدگان کی امداد کے حوالے سے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف نے لچک دکھائی ہے۔ ان کا ایک طریقہ کار ہے جسے مکمل ہونے میں وقت لگتا ہے۔

حقائق کے پیش نظر یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ اسحاق ڈار فوری طور پر آئی ایم ایف سے بڑی فیور لینے میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے، لیکن دو سے تین ماہ میں بہتر معاشی کارکردگی دکھا کر اپنے مطالبات منوائے جا سکتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ