کیا اسحاق ڈار ڈوبتی معیشت سنبھال سکیں گے؟

اسحاق ڈار صاحب کی وطن واپسی کی خبروں سے برآمد کندگان میں تشویش پائی جاتی ہے۔ ان کے مطابق ڈار صاحب ایسے تاجروں اور دکانداروں کے نمائندہ ہیں جو ٹیکس نہیں دیتے۔

پاکستان کے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار 25 مئی 2017 کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران۔ (اے ایف پی/ فائل)

اسحاق ڈار صاحب نے جولائی کے آخر میں پاکستان آنے کا اعلان کیا ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ انہیں ایک مرتبہ پھر وزیر خزانہ بنایا جا سکتا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اسحاق ڈار صاحب وزیر خزانہ بن جاتے ہیں تو اس سے ملکی معیشت پر کیا اثر پڑے گا۔

اس حوالے سے جاننے کے لیے میں نے لاہور چیمبر آف کامرس پروگریسو گروپ کے صدر خالد عثمان صاحب سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ 2013 میں جب پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہوئی تھی تو پاکستان کی برآمدات تقریبا 25 ارب ڈالرز سے زیادہ تھیں۔ اسحاق ڈار کے پانچ سالہ دور میں ان میں کوئی اضافہ نہیں ہوا بلکہ تقریبا ایک بلین ڈالرز کی کمی واقع ہوئی۔ چین سے درآمدات پر انحصار کرنے کی وجہ سے چھوٹی انڈسٹریز تقریباً بند ہو گئیں۔

اسحاق ڈار صاحب کی وطن واپسی کی خبروں سے برآمد کندگان میں تشویش پائی جاتی ہے۔ ان کے مطابق ڈار صاحب ایسے تاجروں اور دکانداروں کے نمائندہ ہیں جو ٹیکس نہیں دیتے۔ ان کے آنے سے تاجروں کو ریلیف ملے گا جبکہ برآمدات کی صنعت سے جڑے کاروباری حضرات کی پریشانی میں اضافہ ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔ اس کے علاوہ ماضی میں ڈالر کو مصنوعی طریقے سے کنٹرول کرنے کی پاکستان کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑی۔ تقریباً 35 ارب ڈالرز کے مہنگے قرضے ڈالر کو کنٹرول کرنے کے لیے استعمال کیے گئے۔ جن کی قیمت پاکستان آج بھی ادا کر رہا ہے۔

نئی حکومت کو تقریبا ڈھائی ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ بظاہر مشکل فیصلے مفتاح اسماعیل لے چکے ہیں ۔آئی ایم ایف کے درمیان معاہدہ تکمیل کے بیشتر مراحل طے کر چکا ہے۔  آئی ایم ایف کی جانب سے میمورنڈم آف اکنامک اینڈ فسکل پالیسی بھی پاکستان کو موصول ہو چکا ہے۔ جس میں ساتویں اور آٹھویں ریویو کے لیے شرائط واضع کر دی گئی ہیں۔ جن پر اگلے چند دن میں عمل درآمد ممکن دکھائی دیتا ہے۔

اس کے بعد ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور دوست ممالک سے تقریباً 22 ارب ڈالرز پاکستان کو مل سکتے ہیں۔

ایسے موقع پر اسحاق ڈار صاحب کا وزرات خزانہ کی سیٹ سنبھالنا پکی پکائی دیگ پر بیٹھنے کے مترادف ہے۔ مفتاح اسماعیل آئینی طور پر چھ ماہ کے لیے وزیر خزانہ رہ سکتے ہیں اس کے بعد وزیر رہنے کے لیے ان کا قومی اسمبلی یا سینٹ کا رکن منتخب ہونا ضروری ہے۔ تقریبا تین ماہ گزر چکے ہیں اور تین ماہ باقی ہیں۔ ممکنہ طور پر اسحاق ڈار سینیٹر کا حلف اٹھانے کے بعد وزیر خزانہ بن جائیں گے۔ لیکن پاکستانی معیشت کے لیے شاید یہ اچھی خبر ثابت نہ ہو۔

اس حوالے سے ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے جزل سیکرٹری ظفر پراچہ صاحب نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسحاق ڈار کے آنے سے ملکی معیشت پر مثبت اثرات آنے کے امکانات کم ہیں۔ جہاں تک بات ہے ڈالر کا ریٹ نیچے آنے کی تو آئی ایم ایف کے قرض ملنے کے بعد ڈالر کا ریٹ نیچے ہی آئے گا۔ اس میں ڈار صاحب کا کوئی کمال نہیں ہو گا۔

ان کے مطابق 2013 سے 2018 تک ڈالر کو مصنوعی طریقے سے نیچے رکھا گیا۔ اس وقت پاکستان کے حالات بہتر تھے اور قرض بھی بآسانی مل رہے تھے۔ اسحاق ڈار نے نئی حکومت بننے کے بعد اعلان کیا تھا کہ پاکستان میں ڈالر کی قیمت 160 روپے ہونی چاہیے۔ اب دیکھتے ہیں کہ وزیر خزانہ بننے کے بعد وہ ایسا کر پاتے ہیں یا نہیں۔ موجودہ صورت حال میں ڈالر خرید کر مارکیٹ کنٹرول کرنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ کیونکہ ایک طرف آئی ایم ایف نے ہم پر کڑی نظر رکھی ہوئی ہے، دوسرا سٹیٹ بینک بھی آزاد ہے اور تیسرا یہ کہ پاکستان کو قرض ملنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ اسحاق ڈار صاحب ایک تجربہ کار وزیر خزانہ ضرور ہیں لیکن موجودہ حالات میں اسحاق ڈار صاحب کا جادو چلنا ناممکن ہے۔ اگر اسحاق ڈار صاحب وزیر خزانہ بنے تو زیادہ امکانات ہیں کہ وہ بھی شہباز شریف کی طرح ’ایکسپوز‘ ہو جائیں گے۔

تاجر برادری کی رائے جاننے کے لیے پاکستان میں بیکری کی بڑی چین کے مالک اور لاہور چیمبر آف کامرس کے اہم رکن حاجی ریاض الدین نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اسحاق ڈار اگر وزیر خزانہ بنتے ہیں تو انہیں ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جس سے ٹیکس کاروبار کی آمدن کی بنیاد پر ہو نہ کہ دکانوں کے سائز کی بنیاد پر ٹیکس لگایا جائے۔ عین ممکن ہے کہ اعظم مارکیٹ میں 6/6 سائز کی دکان والے کی ماہانہ سیل 30 کروڑ روپے ہو اور ایک دیہات میں 18/18 کی دکان کی ماہانہ سیل 50 لاکھ روپے ہو۔ اس صورت حال میں کم آمدن والا ذیادہ اور زیادہ آمدن والا کم ٹیکس دے گا۔

مفتاح اسماعیل فرماتے ہیں کہ فکسڈ ٹیکس سے 40 ارب روپے اکٹھے ہو سکیں گے۔ پاکستان کا ٹیکس حدف 7440 ارب روپے ہیں۔ اس میں 40 ارب کی کیا حیثیت ہے۔ اگر اصول کے مطابق انصاف کے ساتھ ٹیکس لگایا جائے اور وصول کیا جائے تو 40 ارب کا ٹیکس لاہور کی صرف ایک مارکیٹ سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسحاق ڈار مفتاح اسماعیل کی طرح صرف دکان داروں کے ترجمان نہ بنیں بلکہ ملکی مکمل کاروباری طبقے کی آواز بنیں۔ یہی پاکستان کے لیے بہتر ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس حوالے سے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلیمان شاہ صاحب نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اسحاق ڈار کے آنے یا جانے سے ملکی معیشت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ پاکستان کو آئی ایم ایف نے چلانا ہے نا کہ اسحاق ڈار صاحب نے چلانا ہے۔ جو بھی آئی ایم ایف کے فیصلوں سے انحراف کرے گا وہ ملک کے ساتھ دشمنی کرے گا۔ وزیر خزانہ کی حیثیت ربڑ سٹیمپ سے زیادہ نہیں ہے۔ اصل مدعا یہ ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام جلد بحال کیا جائے۔ اسے اپریل میں بحال ہو جانا چاہیے تھا۔ اب بات جولائی کے آخر تک چلی گئی ہے جو کہ تشویش ناک ہے۔ قرضوں کا موجودہ بوجھ بھی اسحاق ڈار کی بدولت ہے۔ میں ہمیشہ روپے کو مصنوعی طور پر مضبوط رکھنے کی اسحاق ڈار کی پالیسی کا نقاد رہا ہوں۔ اگر دوبارہ ایسا ہوا تو ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔

ماہرین کی رائے کے پیش نظر یہ کہنا مناسب ہو گا کہ اسحاق ڈار کے ممکنہ طور پر وزیر خزانہ بننے کے بعد ملکی معاشی صورت حال میں بہتری کی امید کرنا بے سود ہے۔ اسحاق ڈار صاحب بھی وہی کریں گے جو مفتاح اسماعیل کر رہے ہیں یا ماضی میں شوکت ترین اور حفیظ شیخ کر رہے تھے۔ معیشت تو شاید ایسے ہی چلتی رہے لیکن برآمدات کم ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔

اسحاق ڈار صاحب کو چاہیے کہ وہ وزیر خزانہ بننے سے پہلے برآمد کندگان اور کاروباری طبقے کو اعتماد میں لیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ پی ٹی آئی نے ساڑھے تین سالوں میں برآمدات بڑھانے کے لیے جو اقدامات کیے ہیں وہ ضائع ہو جائیں، سرمایہ بیرون ملک منتقل ہونا شروع ہو جائے اور برآمدات بڑھنے کی بجائے کم ہو جائیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ