پی ڈی ایم میں ’دراڑ‘: اسحاق ڈار کہاں ہیں؟

پاکستانی سیاست پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ مشرف کی آمریت ہو یا موجودہ دور شریف خاندان اور دیگر ن لیگی رہنماؤں کے خلاف مبینہ انتقامی کارروائیوں کی فہرست میں اسحاق ڈار کا نام کسی بھی دور میں دکھائی نہیں دیتا۔

سابق وزیر خزانہ  اسحاق ڈار میاں نواز شریف کے سمدھی ہیں۔ (فائل تصویر: اے ایف پی)

پاکستان میں اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے گذشتہ روز ہونے والے اجلاس کے بعد ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس اتحاد میں شامل تمام جماعتیں ایک پیج پر نہیں ہیں اور مختلف اختلافات سامنے آرہے ہیں۔

منگل (16 مارچ) کو اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس کے دوران جہاں پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کی واپسی کو ناگزیر قرار دیا، وہیں سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے بطور سینیٹر سینیٹ انتخابات میں حصہ نہ لینے پر تحفظات ظاہر کیے گئے۔

اس ضمن میں تجزیہ کاروں نے بھی سوال اٹھائے کہ اسحاق ڈار عوامی سیاست میں ہمیشہ سے دکھائی نہیں دیتے، لیکن ہر بار انہیں شریف خاندان کا معتمد خاص پایا گیا ہے۔

مشرف کی آمریت ہو یا موجودہ دور، شریف خاندان اور دیگر ن لیگی رہنماؤں کے خلاف مبینہ انتقامی کارروائیوں کی فہرست میں ان کا نام کسی بھی دور میں دکھائی نہیں دیتا۔

دوسری جانب اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ اگر وہ یہاں موجود بھی ہوتے تو بھی ووٹ کاسٹ نہیں کرسکتے تھے کیونکہ سابق چیف جسٹس نے ان کے بطور سینیٹر کامیابی کا نوٹیفکیشن معطل کر دیا تھا اور پاسپورٹ بھی منسوخ کر رکھا ہے۔

اسحاق ڈار نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ان پر پاکستان آنے اور سینیٹ میں ووٹ ڈالنے پر تنقید بلا جواز ہے۔

انہوں نے پی ڈی ایم کے اجلاس کے دوران ہی آصف زرداری کو جواب دیا کہ ’گیلانی صاحب ان کے ایک ووٹ نہ دینے کی وجہ سے نہیں ہارے۔‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ آصف زرداری نے تسلیم کیا کہ ن لیگ کے کسی سینیٹر کا ووٹ ادھر ادھر نہیں ہوا۔ دوسرا یہ کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے ن لیگ کے ساتھ ’جہاں دوسری مہربانیاں کیں وہیں ان کی کامیابی کا نوٹیفکیشن مئی 2018 میں معطل کر دیا جو آج تک معطل ہے۔ پھر انہوں نے ستمبر 2018 میں حکم دے کر پرویز مشرف کا ضائع شدہ پاسپورٹ بحال کرایا جبکہ اسحاق ڈار کا ویلڈ پاسپورٹ کینسل کرا دیا۔‘

اسحاق ڈار کی اہمیت اور اٹھتے سوالات

سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار میاں نواز شریف کے سمدھی ہیں ان کے بیٹے کی شادی نواز شریف کی صاحبزادی سے ہوئی ہے۔

اسحاق ڈار معاشیات میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور نہ صرف مسلم لیگ ن بلکہ پیپلز پارٹی بھی ان کی معیشت میں بہتری لانے سے متعلق صلاحیتوں کو تسلیم کر چکی ہے۔ وہ نہ صرف ن لیگ کے دور حکومت میں وزیر خزانہ بنائے گئے بلکہ 2008 میں پیپلز پارٹی نے حکومت بنائی تو مسلم لیگ ن کو شریک اقتدار کیا اور کئی وزارتیں دی تھیں۔ اس وقت بھی پیپلز پارٹی قیادت نے وزارت خزانہ اسحاق ڈار کو دینے کی پیش کش کی تھی۔

سیاسی تجزیہ کار اور سابق نگران وزیراعلیٰ ڈاکٹر حسن عسکری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ اسحاق ڈار کی سیاسی اہمیت اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ وہ نواز شریف کے سمدھی ہیں۔

’ہر دور میں جب بھی شریف خاندان پر مشکل وقت آیا، اسحاق ڈار نہ کبھی گرفتار ہوئے اور نہ ملک میں رہے۔ وہ کسی سیاسی جلسے جلوس میں بھی نظر نہیں آئے، قید و بند کی صعوبتوں کی لسٹ میں بھی ان کا نام نہیں، وہ کبھی کسی حلقے سے الیکشن بھی نہیں لڑتے لیکن ن لیگ انہیں اپنے سیاسی اختیار کی بنیاد پر سینیٹر بنا دیتی ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ اسحاق ڈار واحد نہیں جن کا ایسا سیاسی مزاج ہے بلکہ اگر دیکھا جائے تو مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف سمیت پوری قیادت مفاہمت، ڈیل اور اقتدار کی سیاست کرتی ہے۔

حسن عسکری کے خیال میں اس بار بھی ماضی کو مدنظر رکھتے ہوئے ن لیگ سے انقلابی سیاست کی توقع نہیں کی جاسکتی، وہ ابھی تک کوئی نہ کوئی ایسا راستہ تلاش کرنے میں مصروف ہیں کہ آسانی سے اقتدار مل جائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’یہی وجہ ہے کہ پی ڈی ایم کا اتحاد پہلے دن سے غیر فطری رہا ہے کیونکہ اس میں شامل تمام جماعتوں کے الگ مفادات ہیں، ترجیحات بھی مختلف ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’یہ ساری اقتدار حاصل کرنے کی جدوجہد ہے، اسی لیے عوامی حمایت بھی پوری طرح اپوزیشن کے ساتھ نہیں۔ البتہ پیپلز پارٹی کسی حد تک عوامی مسائل پر توجہ کی وجہ سے سیاسی جدوجہد میں اپنا مقام رکھتی ہے لیکن مولانا فضل الرحمٰن یا نواز شریف کے مسائل الگ ہیں۔‘

دوسری جانب ٹی وی اینکر منصور علی خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جب مشترکہ اپوزیشن متحد جدوجہد پر متفق ہوئی تو اسحاق ڈار کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تھا۔ ان کے دو بار سینیٹ میں ووٹ کاسٹ نہ کرنے پر سوال اس لیے بھی اٹھتا ہے کہ اپوزیشن کو ایک، ایک ووٹ کی ضرورت تھی۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ملکی سیاست میں اقربا پروری اور موروثی سیاست کے حوالے سے ہمیشہ سوالات اٹھتے آئے ہیں، خاص طور پر جب سے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے روایت قائم کی کہ کوئی پارٹی یا سرکاری عہدہ اپنے خاندان یا بچوں کو نہیں دینا چاہیے اور وہ اس روایت پر قائم بھی ہیں۔‘

منصور علی خان کے مطابق مسلم لیگ ن ہو یا پیپلز پارٹی انہیں اب اس روایت سے باہر آنا ہوگا کہ سب بڑے عہدے اپنے خاندان میں تقسیم کیے جائیں۔

’پارٹی کی سربراہی ہو، وزارت عظمیٰ ہو وزارت اعلیٰ یا کوئی بھی اہم وزارت دونوں بڑی اپوزیشن جماعتوں کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے ہی بچوں یا خاندان میں رکھی جائیں۔ اسی طرح مولانا فضل الرحمٰن کی پارٹی میں بھی ان کے بھائیوں اور بیٹوں کو خاص اہمیت حاصل ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ اس کے برعکس حکمران جماعت پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے پارٹی قیادت ہو یا کوئی بھی حکومتی عہدہ ابھی تک اپنے بچوں یا خاندان میں کسی کو نہیں دیا۔

ان کے خیال میں موجودہ سیاسی جدوجہد میں اپوزیشن جماعتوں کو اس روایت سے بھی نکلنا ہوگا جس پر عمران خان سمیت کئی سیاسی حلقوں کی جانب سے سوال اٹھائے جاتے ہیں۔

پی ڈی ایم میں اختلافات دور ہوسکیں گے؟

اس سوال کا جواب تو ابھی شاید کسی کے پاس نہیں کیونکہ پی ڈی ایم کے منگل کے روز اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس اور اس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں اپوزیشن لیڈروں کے بیانات اور طرز عمل سے اختلاف کی نوعیت معمولی نہیں لگتی، تاہم اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں میں اس معاملے پر غور ضرور کیا جا رہا ہے۔

لیکن اگر صورت حال کو دیکھا جائے تو پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری نے پی ڈی ایم کو جو بھی تجاویز دیں، ان سے سیاسی منظر نامے میں ہل چل بھی مچی اور حکومت بھی دباؤ میں دکھائی دی۔ جیسے ضمنی اور سینیٹ انتخابات کی تجویز پر عمل کرنے سے اپوزیشن کو کافی حد تک سیاسی کامیابیاں ملیں۔

ڈسکہ ضمنی انتخابات اور یوسف رضا گیلانی کی سینیٹ نشست پر کامیابی سے حکومت کو مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور انہوں نے الیکشن کمیشن سے مستعفی ہونے کا مطالبہ تک کر دیا، مگر اب لانگ مارچ سے قبل اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے معاملے پر بھی آصف زرداری کا موقف مختلف ہے۔ ان کی تجویز ہے کہ اسمبلیاں چھوڑنے سے حکومت ختم نہیں ہوسکتی بلکہ میدان خالی ہوگا۔

انہوں نے نواز شریف کی واپسی کا مطالبہ بھی کیا جو بلاجواز نہیں لگتا کیونکہ وہ پاکستان میں ہوں گے تو اپوزیشن کے موقف کو تقویت ملے گی۔

ماضی کو مدنظر رکھا جائے تو لانگ مارچ، دھرنوں اور استعفوں سے حکومتیں ختم ہونے کی مثالیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔

حسن عسکری کہتے ہیں کہ ’حالات و واقعات کے پیش نظر لگتا ایسا ہے کہ پی ڈی ایم اب کاغذی بن کر رہ جائے گی عملی طور پر کچھ نہیں کر سکے گی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست