سمندری جانور خاموش نہیں بلکہ آپس میں ’باتیں کرتے ہیں‘

آواز کے ذریعے ایک دوسرے سے رابطہ کرنے والے جانوروں میں کچھوے، سمندری چھپکلیاں اور لنگ فش شامل ہیں۔

زیادہ تر تحقیق زمینی جانوروں پر کی جاتی ہے، سمندری جانوروں کو نظرانداز کیا جاتا رہا ہے (سعودی ٹورازم اتھارٹی)

ایک سائنس دان نے دعویٰ کیا ہے ماضی میں خاموش سمجھے جانے والی سمندری مخلوق دراصل بات چیت کر سکتی ہے۔

گیبریل جورجویچ کوہن کا کہنا ہے کہ سمندر میں موجود 53 انواع پیغام رسانی کے قابل ہیں لیکن انسانوں نے انہیں سننے کے لیے کبھی کوشش نہیں کی۔

کوہن نے کچھوؤں سمیت کئی انواع کی آوازوں کو ریکارڈ کرنے کے لیے مائکروفون کا استعمال کیا اور انہیں معلوم ہوا کہ یہ آبی مخلوق افزائش اور انڈوں سے بچوں کے نکلنے کے وقت رابطہ قائم کرنے کے لیے آوازیں نکالتی ہیں۔ اس تحقیق کے نتائج میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’ہم ارتقا کے بارے میں جو کچھ جانتے ہیں اسے دوبارہ لکھنے کی ضرورت ہے۔‘

نتائج سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ تمام ریڑھ کی ہڈی والے جانور جو ناک کے ذریعے سانس لیتے ہیں اور رابطے کے لیے آواز کا استعمال کرتے ہیں ان کا تعلق 40 کروڑ سال پہلے ایک ہی جدِ امجد سے تھا۔

سوئٹزرلینڈ کی یونیورسٹی آف زیورخ میں پی ایچ ڈی کے طالب علم کوہن نے اپنی تحقیق کام کا آغاز اس تصور کے ساتھ کیا تھا کہ سمندری جانور شاید آواز کے ساتھ رابطہ کر سکتے ہیں۔ انہوں نے انگلینڈ کے چیسٹر چڑیا گھر سمیت دنیا بھر میں منصوعی ماحول میں بند 53 آبی جانوروں کی آواز ریکارڈ کرنے کے لیے آواز اور ویڈیو آلات کا استعمال کیا۔

ان آبی جانوروں میں 50 کچھوے ایک سمندری چھپکلی، ایک لنگ فش اور ایک سیسیلین شامل تھے۔

ماضی میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ یہ تمام جانور خاموش تھے لیکن کوہن کا خیال ہے ہم انہیں نہیں سن رہے تھے کیوں کہ ان کی آوازوں کا پتہ لگانا مشکل تھا۔

انہوں نے بی بی سی نیوز کو بتایا: ’ہم جانتے ہیں جب پرندے چہچہاتے ہیں آپ کو کسی کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ یہ کیا ہے۔ لیکن کچھ جانور بہت خاموش ہیں یا ہر دو دن بعد آواز نکالتے ہیں۔‘

کوہن نے مزید کہا کہ انسان زمین پر رہنے والی مخلوقات کے بارے میں زیادہ جانبدارانہ رویہ رکھتا ہے اور اس لیے انہوں نے پانی کے اندر موجود انواع کو نظر انداز کیا۔

جانوروں کے شور مچانے پر ریکارڈ کی گئی ویڈیو سے انہیں آوازوں کو متعلقہ رویے سے موازنہ کرنے میں مدد ملی تاکہ ان کا حادثاتی آوازوں سے فرق کیا جا سکے جو پیغام بھیجنے کے لیے نہیں نکالی گئی تھیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کوہن نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا: ’سمندری کچھوے انڈوں سے نکلتے وقت سنکرونائز کے عمل کے لیے آوازیں نکالتے ہیں۔ اگر وہ انڈوں کے اندر سے پکارتے ہیں تو سب اکٹھے باہر آ جاتے ہیں جس سے امید ہوتی ہے کہ وہ شکار ہونے سے بچ جائیں۔‘

کچھوے اس بات کا اظہار کرنے کے لیے بھی آوازیں نکالتے ہیں کہ وہ ملاپ چاہتے ہیں۔ انہوں نے کچھوؤں کے ملاپ کی آوازوں پر مبنی ویڈیوز کی جانب اشارہ کیا جو سوشل میڈیا پر مقبول ہیں۔

کوہن نے اپنے علاقے کی حفاظت کے لیے آوازیں نکالنے والی سمندری چھپکلیوں کی آوازوں کو بھی ریکارڈ کیا۔ اس کے بعد انہوں نے اس بات پر غور کرنا شروع کیا کہ اس دریافت سے شور مچانے والے جانوروں کے ارتقا کے بارے میں کیا انکشاف ہوتا ہے۔

phylogenetic analysis  نامی تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے کوہن نے شور مچانے والے جانوروں کے درمیان تعلق کا پتہ لگایا۔

انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ تمام آوازوں سے رابطہ کرنے والے ریڑھ کی ہڈی والے تمام جانور 40 کروڑ سال پہلے ایک ہی جد سے پیدا ہوئے تھے۔ یہ ڈیوونین دور تھا جب زیادہ تر انواع پانی کے اندر رہتی تھیں۔

یہ حالیہ تحقیق اس سے قبل ہماری پرانی معلومات سے متصادم ہے جس میں 20 کروڑ سال پہلے متعدد انواع میں مواصلاتی آواز کا سراغ لگایا گیا تھا۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق