عمران خان آرمی چیف کی تعیناتی کو سیاسی رنگ کیوں دے رہے ہیں؟

بات اب بدگمانی سے نکل کر حق الیقین کے درجے میں پہنچ رہی ہے کہ عمران خان کے سامنے نہ کوئی میرٹ ہے اور نہ کوئی اصول، وہ ذات اور مفاد کے حصار سے باہر نہیں نکل سکے۔

عمران خان یکم نومبر، 2022 کو گوجرانوالہ میں نظر آ رہے ہیں(اے ایف پی)

یہ تحریر آپ کالم نگار کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں:

عمران خان تکرار کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ آرمی چیف کی تعیناتی میرٹ پر ہونی چاہیے لیکن راز کی یہ بات انہوں نے ایک مرتبہ بھی بیان نہیں فرمائی کہ ان کے نزدیک آرمی چیف کی تعیناتی کا ’میرٹ‘ کیا ہے؟

عمران خان اس خد شے کا بھی متعدد بار اظہار کر چکے ہیں کہ وزیر اعظم ایک ایسے آرمی چیف کو لانا چاہتے ہیں جو ان کی لوٹ مار پر گرفت نہ کرے.

لیکن وہ ایک بار بھی اس سوال کا جواب نہیں دے سکے کہ حکمران طبقے کی مبینہ لوٹ مار پر گرفت نیب اور متعلقہ اداروں کا کام ہے یا آرمی چیف کا؟

عمران خان ماضی میں یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ حکمران اس بات پر خوف زدہ ہیں کہ اگر محب وطن آرمی چیف آ گیا تو وہ ان سے ان کی لوٹ مار پر سوال پوچھے گا۔

لیکن عمران خان اس نکتے کی وضاحت نہیں فرما سکے کہ محب وطن آرمی چیف سے ان کی کیا مراد ہے؟ اور کیا ان کے خیال میں افواج پاکستان کی ادارہ جاتی چھلنی سے گزر کر جو چند لوگ اپنے ادارے ہی کی جانب سے اس منصب کے لیے باقاعدہ طور پر اہل قرار پاتے ہیں ان میں سے کوئی غیر محب وطن بھی ہو سکتا ہے؟

نیز یہ کہ ان کی ’حب الوطنی‘ جانچنے کا وہ کون سا پیمانہ ہے جو افواج پاکستان کے پاس تو نہیں مگر عمران خان صاحب کے پاس موجود ہے؟

سوال اب یہ ہے کہ عمران خان محض درویش کا تصرف ہیں اور وہ کسی بھی وقت کسی بھی موضوع پر کچھ بھی کہہ سکتے ہیں یا وہ ایک بالغ نظر سیاست دان ہیں جسے حرف گفتہ اور ناگفتہ کا فرق معلوم ہونا چاہیے؟

وہ صرف اقوال زریں کا ایک خوبصورت مجموعہ ہیں یا ان کا کوئی  حاشیہ اور متن بھی ہے؟

آئیے اس سوال کو دیکھتے ہیں کہ آرمی چیف  کی تعیناتی کا میرٹ کیا ہے اور کیا کوئی وزیر اعظم اس میرٹ کو پامال کر سکتا ہے؟

آرمی چیف بننے کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ متعلقہ آدمی تھری سٹا ر جنرل ہو، یعنی لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر فائز ہو۔

تو کیا وزیر اعظم کے اختیار میں ہے کہ وہ کسی میجر جنرل کو آرمی چیف بنا دے؟

آرمی چیف کا منصب سنبھالنے کے لیے دوسری شرط یہ ہے کہ اس لیفٹیننٹ جنرل نے کور کو کمانڈ کیا ہو یعنی وہ کور کمانڈر بھی رہ چکا ہو۔

تو کیا وزیر اعظم کے لیے یہ ممکن ہے وہ کسی ایسے آدمی کو آرمی چیف بنا دے جو کور کمانڈر نہ رہا ہو؟

آرمی چیف کے منصب کے لیے جو لوگ اہل ہوتے ہیں، وہ ایک طویل مدت ادارے میں خدمات انجام دینے کے بعد، ایک سخت چھلنی سے گزر کر اس مقام تک پہنچتے ہیں۔

ان کے نام ادارے کی جانب سے وزیر اعظم کو بھیجے جاتے ہیں اور وزیر اعظم  ان میں سے کسی ایک کو آرمی چیف کے لیے چن لیتے ہیں اور آئین کے آرٹیکل 243  کی ذیلی دفعہ تین کے تحت وزیر اعظم کی سفارش و ہدایت پر صدر مملکت ان کی تعیناتی کا حکم جاری کر دیتے ہیں۔

ان کی حب الوطنی جانچنے کا عمران خان کے پاس اگر کوئی اور پیمانہ ہے تو اسے سامنے کیوں نہیں لایا جا رہا؟ تاکہ جی ایچ کیو آئندہ کے لیے اہلیت کا ایک سرٹیفکیٹ بنی گالہ  سے بھی منگوا لیا کرے۔

عمران خان جس معاملے پر سیاست کر رہے ہیں وہ اس معاملے کی وضاحت کیوں نہیں فرما رہے؟

سوال بڑے سادہ سا ہے کہ اس موجودہ میرٹ سے ہٹ کر ان کے نزدیک آرمی چیف کی تعیناتی کا اگر کوئی الگ میرٹ ہے اور تھری سٹار جرنیل کی حب الوطنی کو جانچنے کا کوئی الگ پیمانہ ہے تو وہ کیا ہے؟

یا پھر یوں کر لیا جائے کہ آرمی چیف کی تعیناتی کے تمام قواعدو ضوابط کو معطل کرتے ہوئے یہ اصول طے کر دیا جائے کہ چیف آف آرمی سٹاف کی تعیناتی بھی اب اسی میرٹ پر ہوا کرے گی جس میرٹ پر بنی گالہ کا چیف آف سٹاف تعینات کیا جاتا ہے؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

قومیں اقوال زریں سنا سنا کر اور مغرب کی مثالیں دے دے کر نہیں بنتیں۔ قومیں اپنی فرد عمل سے بنتی ہیں۔

سوال یہ ہے بطور حکمران عمران خان صاحب کی کارکردگی کیا ہے؟

ان کے دور حکومت میں جب عدلیہ نے ایکسٹینشن پر سوال اٹھایا تو ان کے پاس موقع تھا وہ ایکسٹینشن دینے سے انکار کر دیتے اور ایک اچھی روایت قائم کر جاتے لیکن اس وقت انہوں نے جس وارفتگی سے ایکسٹینشن دی تھی، آج اسی وارفتگی سے وہ  ’میرٹ‘ اور روایات کی کہانیاں سنا رہے ہیں؟

جس ’میرٹ‘ کا وہ آج مطالبہ کر رہے ہیں یہ ’میرٹ‘ وہ خود کیوں متعارف نہ کرا سکے؟

عمران خان دنیا کی ہر زبان میں اقوال زریں سنا سکتے ہیں، کارکردگی مگر وہ کسی زبان میں بھی نہیں دکھا سکے۔

یہ بات اب بد گمانی سے نکل کر حق الیقین کے درجے میں پہنچ رہی ہے کہ ان کے سامنے نہ کوئی میرٹ ہے نہ کوئی اصول نہ کوئی فلسفہ حیات، وہ ذات  اور مفاد کے حصار سے باہر نہیں نکل سکے۔

وہ صرف یہ بتا رہے ہیں کہ اقتدار سے نکل کر وہ واقعی ’خطرے ناک‘  ہو گئے ہیں اور اب وہ ہر فرد ہر جماعت ور ہر ادارے کو متنازع بنا دینا چاہتے ہیں۔

عمران خان خود کہہ چکے ہیں کہ وہ مائنڈ گیم کے ماہر ہیں تو کیا اس رویے کو اسے گیم کا حصہ سمجھا جائے تاکہ ادارے کو ہمہ وقت دباؤمیں رکھا جا سکے اور ضرورت پڑنے پر یہ کہا جا سکے کہ ’میں نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا۔‘

یعنی ابھی ان کا اصل کھیل شروع نہیں ہوا، ابھی وہ صرف صف بندی کر رہے ہیں؟ کپتان ہی کے الفاظ مستعار لوں تو ابھی انہوں نے اس پر کھیلنا ہے۔

نوٹ: یہ مضمون لکھاری کی ذاتی رائے پر مبنی ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ