کیا گورڈن کالج کو ایک بار پھر مسیحی مشنریز کے حوالے کیا جا رہا ہے؟

موجودہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ، جنرل جہانگیر کرامت، سابق وزیراعظم شوکت عزیز، سابق وفاقی وزیر پرویز رشید، شیخ رشید، پرویز خٹک، اداکار راحت کاظمی، ہمایوں گوہر اور طلعت حسین بھی اسی ادارے سے فارغ التحصیل ہیں۔

گورڈن کالج راولپنڈی کے طلبہ اپنے تعلیمی ادارے کو ممکنہ طور پر مسیحی مشنری کے حوالے کرنے کے خلاف مظاہرے کر رہے ہیں (سجاد اظہر)

گورڈن کالج راولپنڈی جسے قائم ہوئے 129 برس ہو چکے ہیں اسے ایک بار پھر یونائیٹڈ پرسبٹیرین چرچ امریکہ کے حوالے کیا جا رہا ہے۔ حکومتِ پنجاب ایسا کیوں کر رہی ہے اور اس کے پیچھے کہانی کیا ہے؟ اس سے پہلے ہم آپ کو اس انتہائی اہم تعلیمی ادارے کی تاریخ بتاتے ہیں۔

جب انگریزوں نے ہندوستان پر اپنا تسلط قائم کر لیا تو دنیا بھر سے مسیحیت کی تبلیغ کے لیے مشنریز نے ہندوستان کا رخ کیا، ان میں سے ایک یونائیٹڈ پرسبٹیرین چرچ نیویارک بھی تھا۔

اس نے 1853 میں دو فراد جے ٹی ٹیٹ اور اینڈریو گورڈن کو ہندوستان میں مبلغین کے طور پر نامزد کیا۔ اینڈریو گورڈن کے والد الیگزینڈر یونائیٹڈ پرسبٹیرین چرچ نیویارک کے پادری تھے۔

مسٹر ٹیٹ تو آنے سے انکاری ہو گئے تاہم اینڈریو گورڈن نے یہ چیلنج قبول کر لیا اور وہ اپنے خاندان کے ساتھ 13 فروری 1854 کو کلکتہ پہنچ گئے، جہاں سے وہ لاہور پہنچے اور مسٹر موریسن سے ملے جو پہلے ہی یہاں آ چکے تھے۔

دونوں نے راولپنڈی کے راجہ بازار میں 1856 میں ایک سکول قائم کر دیا، جس میں کل 12 طلبہ تھے۔

1893 تک راولپنڈی میں کوئی کالج نہیں تھا، جس پر مشن نے فیصلہ کیا کہ دوسرے شہروں میں جا کر تعلیم حاصل کرنا ہر طالب علم کے لیے ممکن نہیں ہے اس لیے یہاں کالج بنایا جائے۔

مسٹر ریو ای ای فائیو کو اس کالج کا پہلا پرنسپل بنایا گیا اور اس کا نام اینڈریو گورڈن کے نام پر گورڈن مشن کالج رکھا گیا، جو 1887 میں وفات پا چکے تھے۔

اس وقت یہاں زیر تعلیم طلبہ کی تعداد 1024 تھی۔ کالج کے اخراجات فیسوں اور چرچ کی جانب سے عطیات سے پورے کیے جاتے تھے۔ انٹر لیول تک انگریزی، ریاضی، فارسی، سنسکرت، فلسفہ اور تاریخ کے مضامین پڑھائے جاتے تھے۔

پہلے سال کی فیس تین اور دوسرے سال کی چار روپے مقرر تھی۔ 1895 میں کالج کا الحاق پنجاب یونیورسٹی سے ہو گیا۔ یونیورسٹی میں 11 طلبہ نے داخلے کے لیے امتحان دیا جس میں سے آٹھ پاس ہو گئے۔ اس سال کالج کے کل اخراجات دو ہزار 698 روپے تھے جبکہ فیسوں کی صورت میں آمدن 492 روپے تھی۔

خسارے کو چرچ سے ملنے والے عطیے سے پورا کیا جاتا تھا۔ کالج کا نظم و نسق سخت تھا اور وہ طلبہ جو اس پر پورے نہیں اترتے تھے، انہیں کالج سے نکال بھی دیا جاتا تھا۔

کالج میں بائبل کی کلاسیں بھی ہوتی تھیں۔ 1893 سے 1902 تک کالج کی کوئی الگ عمارت نہیں تھی بلکہ سکول کی عمارت میں ہی کالج کی کلاسیں ہوتی تھیں۔

اساتذہ بھی رضاکارانہ بنیادوں پر کالج کی کلاسیں لیتے تھے جن میں بھائی بھیشن سنگھ، بھگت گوگل چند، ٹوپہ رام، مولوی بدرالدین، پنڈت جیوتی رام، گرجا پرشاد، فضل حسین، اتم چند، بھائی لکشمن سنگھ، اواتار سنگھ اور منگل سنگھ شامل تھے۔

کالج کے پہلے پرنسپل مسٹر ففی تھے، پہلے 10 سالوں میں پانچ پرنسپل تبدیل ہوئے۔ 1901 میں حکومت نے فیصلہ کیا کہ سکول اور کالج کو علیحدہ علیحدہ کر تے ہوئے کالج کو بی اے لیول تک کر دیا جائے، تاہم کالج کے لیے الگ عمارت کی تعمیر کا مرحلہ درپیش تھا جسے شکاگو کی دو خواتین ای سی لا اور اینا لا نے 12 ہزار ڈالر کا عطیہ دے کر پورا کیا جس سے ایک ہال، اس کے ارد گرد آٹھ کلاس روم اور 35 طلبہ کے لیے ایک ہاسٹل بنایا گیا تھا۔

کالج کی یہ نئی عمارت کمپنی باغ، جو آج کل لیاقت باغ کہلاتا ہے، کے قریب بنائی گئی تھی جس میں ڈبلیو بی اینڈرسن کو پہلا پرنسپل مقرر کیا گیا۔ اسی سال تھرڈ ایئر کی کلاسز دو طلبہ کے ساتھ شروع ہوئیں۔

تھرڈ ایئر کی فیس پانچ اور فورتھ ایئر کی چھ روپے تھی۔ پرنسپل مسٹر اینڈرسن اپنے طبی مسائل کی وجہ سے امریکہ چلے گئے۔ ان کی جگہ 1903 میں ریو جے ایس مورٹن پرنسپل تعینات ہوئے جن کے دور میں پنجاب یونیورسٹی کے چانسلر اور گورنر لیفٹیننٹ سر چارلس ریوس نے 20 مارچ 1903 کو کالج کی نئی عمارت کا افتتاح کیا۔

1904 میں سائنس کلاسز شروع ہوئیں۔ دین محمد اور ایشرداس کالج کے پہلے گریجویٹ تھے۔ جے ایس مورٹن ایک نہایت حساس پرنسپل تھے۔ ایک بار انہوں نے ایک طالب علم کو ڈنڈے سے مارا اور اس کے بعد خود رونے لگ گئے۔

ہاسٹل میں جب کبھی کوئی طالب علم بیمار پڑ جاتا تو پرنسپل خود اس کے سرہانے ساری رات جاگ کر گزار دیتے۔ وہ خود 1909 میں بیمار ہو گئے اور اگلے سال امریکہ میں وفات پا گئے۔

کالج ہاسٹل میں اب مسلمان، ہندو اور مسیحی طلبہ کے لیے الگ الگ کھانے اور نہانے کا انتظام کر دیا گیا تھا۔ ڈاکٹر ای ایل پورٹر کو سب سے طویل عرصے تک پرنسپل رہنے کا اعزاز حاصل ہے۔ وہ 1910 سے 1933 تک پرنسپل رہے۔

ان ہی کے دور میں دو لڑکیوں مس پی بی پونسن بائی اور مس کے ڈی ایس بالی کو 1917 میں کالج میں داخل کیا گیا۔ کالج میں نئے بلاکس، ہال، پرنسپل کی رہائش اور سرونٹ کوارٹر تعمیر ہوئے۔ گورڈن کالج کے میگزین گورڈونین کا پہلا شمارہ بھی 1915 میں شائع ہوا۔

اسی سال کالج کا نام گورڈن مشن کالج سے صرف گورڈن کالج کر دیا گیا۔ کالج کے طلبہ کی تعداد بھی 100 سے بڑھ کر 500 تک پہنچ گئی۔1927 میں بی ایس باٹنی اور کیمسٹری کی کلاسز شروع ہوئیں اور کالج سٹاف بھی سات سے بڑھ کر 27 ہو گیا۔

کالج میں نظم و نسق پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاتا تھا، اساتذہ طلبہ کی نصابی و ہم نصابی سرگرمیوں کے ذمہ دار تھے۔ ہر طالب علم کے لیے ضروری تھا کہ وہ کسی ادبی سرگرمی کا حصہ بنے۔ طلبہ کے مابین کھیلوں اور ہم نصابی سرگرمیوں کے مقابلے کرائے جاتے تھے جن میں نمایاں پوزیشنیں حاصل کرنے والوں کو انعامات دیے جاتے تھے۔

ہاکی، فٹ بال، باسکٹ بال، والی بال، ٹینس اور بیڈ منٹن کے الگ الگ کورٹ موجود تھے۔ کالج میں 1925 میں بجلی لگ گئی جس پر پانچ ہزار روپے کے اخراجات آئے۔

زیادہ تر اساتذہ کی رہائش گاہیں کالج کے اندر ہی تھیں، جو کالج ٹائم کے بعد بھی طلبہ پر گہری نظر رکھتے تھے۔ کالج کی لائبریری میں 4 ہزار 339 کتابیں تھیں جبکہ 38 اخبارات و جرائد بھی باقاعدگی سے آتے تھے۔

1927 میں کالج ہاسٹل کو توسیع دی گئی اور اب یہاں 120 طلبہ ٹھہر سکتے تھے۔ اسی دوران کالج میں نئی سائنس لیبارٹریز بھی بنائی گئیں۔ اسی سال کیمسٹری میں ایم ایس سی کی کلاسز کی بھی منظوری دی گئی۔ اس دور میں کالج میں مشنری اساتذہ کی تنخواہ 600 روپے تھی اور ساڑھے سات سال بعد انہیں گھر جانے کے لیے ریٹرن ٹکٹ اور ڈیڑھ سال کی چھٹی دی جاتی تھی۔

کالج میں رہائش مفت تھی اور ریٹائرمنٹ کی عمر 70 سال یا 40 سال کی نوکری تھی۔ جبکہ غیر مشنری اساتذہ کی تنخواہ 130 سے 300 کے درمیان تھی جن میں سے سنسکرت اور عربی پڑھانے والوں کی مزید کم ہو کر 80 روپے تھی۔

1926 میں پاس ہونے والے طلبہ کی شرح ایف اے میں 55، ایف ایس سی میں 99، بی اے میں 91 اور بی ایس سی میں 33 فیصد تھی۔

ڈاکٹر پورٹر 1933 میں ریٹائر ہو گئے اور ان کی جگہ مسٹر رالف سٹیورٹ پرنسپل بنائے گئے جو 1955 تک رہے۔ وہ 1911 سے 1914 تک کالج میں باٹنی اور زولوجی پڑھاتے رہے تھے مگر پھر وہ امریکہ چلے گئے جہاں وہ کولمبیا یونیورسٹی سے منسلک ہو گئے۔

ان کا سب سے اہم کارنامہ پہاڑی علاقوں کی نباتات پر کام کرنا تھا۔ انہوں نے برصغیر کے پودوں کو جنہیں پہلے کوئی نہیں جانتا تھا انہیں دنیا سے روشناس کرایا اور ان کے نام رکھے۔ ان کا شمار دنیا کے مانے ہوئے ماہرینِ نباتات میں ہوتا تھا جنہوں نے برصغیر کے 60 ہزار پودوں کو مختلف علاقوں سے اکٹھا کیا۔

پنجاب یونیورسٹی نے ان کے تحقیقی کام پر انہیں 1952 میں ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری دی۔ وہ تعلیم نسواں کے حامی تھے۔ ان ہی کے دور میں 1934 میں فرسٹ ایئر میں لڑکیوں کو داخلہ ملنا شروع ہوا، اس سے قبل لڑکیاں صرف تھرڈ اور فورتھ ایئر میں پڑھتی تھیں۔ خواتین کی انچارج ان کی بیوی تھیں جنہیں حکومت نے 1938 میں قیصرِ ہند کا خطاب دیا تھا۔

1940 میں کالج میں ایم اے انگلش، 1948 میں ایم اے اردو اور 1953 میں ایم اے تاریخ کی کلاسیں شروع ہوئیں۔ 1950 میں کالج میں زیر تعلیم طالب علموں میں سے 62 طالبات تھیں۔

1946 میں پنجاب یونیورسٹی کے بی ایس سی کے امتحانات میں پہلی پوزیشن گورڈن کالج کے طالب علم سعد ہارون نے حاصل کی۔ بے اے میں بھی اسی کالج کے سرجیت سنگھ نے ٹاپ کیا۔

تقسیم کے بعد کالج میں سیاست کیسے آئی؟

تقسیم نے کالج کی تدریسی سرگرمیوں کو بہت متاثر کیا، جب ہندو اور سکھ اساتذہ انڈیا چلے گئے۔ یہ صورت حال پرنسپل مسٹر سٹیورٹ کے لیے ایک بڑا چیلنج بن گئی، جس کا انہوں نے بڑے حوصلے سے مقابلہ کیا۔

1950 میں طلبہ کی تعداد 919 ہو گئی کیوں کہ بہت سے طلبہ کو مفت تعلیم کی آفر کی گئی تھی۔ اب کالج میں اردو بھی پڑھائی جانے لگی۔ کالج میں 225 طلبہ کے لیے چار ہاسٹل تھے۔ لائبریری میں 18 ہزار کتابیں اور کالج میں 35 ہزار خشک نباتات کے نمونے موجود تھے۔

1953 میں مسٹر سٹیورٹ کی بیگم کینسر سے وفات پا گئیں، جس کے بعد انہوں نے گورڈن کالج کے سابق پرنسپل مسٹر پورٹر کی بیٹی مس ڈبلیو ایچ پورٹر، جو کہ کینیئرڈ کالج لاہور میں پڑھاتی تھیں، سے شادی کر لی۔

1954 میں مسٹر سٹیورٹ نے ریٹائرمنٹ لے لی، لیکن کالج انتظامیہ کے کہنے پر وہ 1960 تک کالج میں ہی مقیم رہے اور پھر وہ امریکہ چلے گئے۔ انہوں نے گورڈن کالج میں 50 سال خدمات سرانجام دیں، جس پر حکومت پاکستان نے انہیں 1961 میں ستارہ امتیاز عطا کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

1970 میں گورڈن کالج کی نئی عمارت بنی۔ حکومت پنجاب نے جب 1974 میں میڈیکل کالج قائم کیا تو امریکن مشن سے اجازت حاصل کی کہ ایک سال کے لیے اسے کالج کی عمارت استعمال کرنے دی جائے۔ مسٹر سٹیورٹ کے بعد مسٹر کومنگز پرنسپل بنے لیکن انہوں نے دو سال کے بعد کہا کہ اب کسی پاکستانی کو پرنسپل ہونا چاہیے، جس پر 1957 میں ڈاکٹر ایم اے قیوم ڈسکوی کو پرنسپل بنایا گیا۔

ان کی نگرانی میں جوبلی ہال تعمیر ہوا، جس کا افتتاح اس وقت کے صدر سکندر مرزا نے کیا۔

22 جنوری 1963 کو کالج میں طلبہ اور اساتذہ کے درمیان مباحثہ ہوا جس کے مہمان خصوصی اس وقت کے سیکریٹری انفارمیشن قدرت اللہ شہاب تھے۔ یہ مباحثہ طلبہ نے جیتا تھا۔ 1963 سے 1970 تک پروفیسر وی کے مل پرنسپل رہے۔ ان کے دور میں کالج کے شعبہ انگریزی کی طالبات مس نیلوفر دین اور مس فرحت سالک نے یونیورسٹی میں اول پوزیشن حاصل کی لیکن ان ہی کے دور میں ملک میں سیاسی ابتری شروع ہو گئی۔

کالج میں ایک ناخوشگوار واقعہ یہ پیش آیا کہ لڑکیوں کی نگران مس خان ایک رات اپنے کمرے میں مردہ حالت میں پائی گئیں۔ خدشہ ظاہر کیا گیا کہ انہیں قتل کیا گیا ہے، جس کے بعد کالج کی فضا میں خوف کا عنصر داخل ہوگیا۔ اسی دور میں ملک میں مارشل لا کے خلاف مظاہرے شروع ہو گئے۔

کالج میں طلبہ یونین کافی طاقتور ہو گئی۔ اس کے صدر راجہ شاہد ظفر تھے جو بعد میں وفاقی وزیر بنے، شاہد مسعود نائب صدر اور شیخ رشید جنرل سیکریٹری تھے۔ مسٹر مل پر ایک الزام یہ بھی تھا کہ انہوں نے میرٹ سے ہٹ کر سیاسی دباؤ کے تحت داخلے کیے تھے، جس کی وجہ سے کالج میں ابتری شروع ہوئی۔ جس کی وجہ سے انہیں 1970 میں جبری ریٹائر کر دیا گیا۔ اس کے بعد سی اے پیٹرس، ڈاکٹر ونسٹ، پروفیسر سٹیون اوپر تلے پرنسپل بنے اور کالج کو سنبھالنے کی پوری کوشش کی کیوں کہ کالج میں اساتذہ میں گروہ بندیاں اور کالج کا تدریسی نظام درہم برہم ہو چکا تھا۔

گورنر پنجاب غلام مصطفیٰ کھر نے مسٹر سٹیون کو برطرف کرکے ڈاکٹر اے کیو ڈسکوی کو ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا۔

1972 میں آنے والی نئی تعلیمی پالیسی کے تحت حکومت نے گورڈن کالج سمیت تمام پرائیویٹ اداروں کو سرکاری تحویل میں لے لیا اور وقتی طور پر ڈاکٹر ایف زاویئر کو انچارج لگا دیا جس کے بعد 15 ستمبر 1972 کو پروفیسر خواجہ مسعود کو پرنسپل مقرر کر دیا گیا جو کہ کالج کے ہی فارغ التحصیل طالب علم تھے۔

موجودہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ، جنرل جہانگیر کرامت، سابق وزیراعظم شوکت عزیز، سابق وفاقی وزیر پرویز رشید، شیخ رشید، پرویز خٹک، ڈاکٹر مجاہد کامران، ڈاکٹر شاہد صدیقی، جسٹس شاہ دین محمد، اداکار راحت کاظمی، ہمایوں گوہر اور طلعت حسین بھی اسی ادارے سے فارغ التحصیل ہیں۔

اب مسئلہ کیا ہے؟

کالج کا قیام امریکن پرسبٹیرین چرچ نے برطانوی عہد میں کیا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد سے جب تک اسے قومیا نہیں لیا گیا اس کا انتظام بورڈ آف ڈائریکٹرز ہی چلاتے رہے مگر جب اسے قومیایا گیا تو اس کے معاملات اسی وقت سے عدالتوں میں چل رہے تھے۔

پنجاب پروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسوسی ایشن کے نمائندگان پروفیسر خرم شہزاد اور پروفیسر ظفراللہ شاہین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 1987 میں جب پرسبٹیرین مشنریز کے لوگوں کو کہا گیا کہ وہ کالج کے اندر اپنے بنگلے خالی کریں کیوں کہ کالج اب سرکار کی ملکیت ہے۔ اس پر انہوں نے عدالت کو کہا کہ یہ کالج ہمارا ہے اور ہم اس جائیداد کے مالک ہیں۔

اس کیس کوپرسبٹیرین مشن سیالکوٹ کی جانب سے دائر کیا گیا تھا، جس پر عدالت نے مشن کے حق میں فیصلہ سنا دیا۔ حکومت نے اپیل کر دی، عدالت نے اپیل بھی خارج کر دی۔ سیشن کے بعد ہائی کورٹ میں بھی مشن کے حق میں فیصلہ آیا۔ اس کے بعد یہ کیس سپریم کورٹ میں ابھی تک زیر التوا ہے، جس کا نمبر سی ایم اے 6676/2022 ہے۔

مگر حکومت پنجاب نے اس دوران کالج کا انتظامی کنٹرول پرسبٹیرین مشن امریکہ، جو کہ ایف سی کالج لاہور بھی چلا رہا ہے، کو دینے کی کوشش شروع کر دی ہے۔

اس کی وجہ سے کالج انتظامیہ اور طلبہ میں بے چینی پائی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کالج پرسبٹیرین مشن سیالکوٹ نے قائم کیا تھا۔

1993 میں یہ تمام مشن پاکستان پرسبٹیرین مشن میں ضم ہو گئے، مگر اب پرسبٹیرین مشن یو ایس اے، جس نے ایف سی کالج لاہور کا کنٹرول بھی 2003 سے سنبھال لیا ہے، اس کیس میں فریق بن گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ایف سی کالج اس سال مئی میں فریق بنا اور جون میں ہمارے خلاف فیصلہ آ گیا، حالاں کہ ہمیں نہ کوئی نوٹس موصول ہوا اور نہ ہی ہمارے وکیل کو بتایا گیا۔

’ہم نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج بھی کر رکھا ہے مگر اس کے باوجود پرسبٹیرین مشن یو ایس اے نے پنجاب حکومت کے ساتھ مل کر کالج کا انتظام سنبھالنے کے لیے کاغذی کارروائی شروع کر دی ہے اور ہم سے کالج کی تمام تفصیلات مانگ لی گئی ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ 2003 میں پرویز الہٰی نے ہی ایگزیکٹو آرڈر کے تحت ایف سی کالج امریکی مشن کے حوالے کیا تھا، اب ان ہی کے دور میں گورڈن کالج بھی امریکہ کے حوالے کیا جا رہا ہے۔

دوسری جانب پرسبٹیرین چرچ یو ایس اے کے پاکستان میں نمائندے بریگیڈیئر (ر) ڈاکٹر نیئر فردوس، جو گورڈن کالج راولپنڈی ٹرسٹ کے وائس چیئرمین بھی ہیں، نے اس تاثرکو رد کیا ہے کہ وہ کالج پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’ایف سی کالج بھی تباہ حال تھا۔ ہم نے اس کا انتظام سنبھال کر اسے صف اول کی یونیورسٹی بنایا۔ اسی طرح ہم گورڈن کالج کی ساکھ کو بھی نہ صرف بحال کرنا چاہتے ہیں بلکہ اسے ایک جدید یونیورسٹی کی شکل دینا چاہتے ہیں۔‘

اس مقصد کے لیے ہماری حکومت پنجاب سے گذشتہ کئی سالوں سے گفت و شنید ہو رہی ہے اور حکومت کے سامنے ایف سی کالج کی مثال بھی موجود ہے کہ پہلے وہ کس حال میں تھا اور اب وہ کس مقام پر ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ گورڈن کالج میں نہ اساتذہ کو نکالیں گے اور نہ ہی کسی طالب علم کی فیس بڑھائیں گے بلکہ وہ اسے یونیورسٹی بنا کر ایک مثالی تعلیمی ادارہ بنائیں گے۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ