کیا سیاست کے شور میں سیلاب زدگان کی آواز ڈوب گئی ہے؟

امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ میڈیا کی پوری توجہ سیاست دانوں پر ہے اور سیلاب متاثرین کو کوریج نہیں دی جا رہی جس سے خیراتی اداروں کو دیے جانے والے عطیات بھی رک گئے ہیں۔

26 اگست 2022 کو جیکب آباد میں سیلاب متاثرین اپنے مویشیوں کے ساتھ (اے ایف پی)

چند ہفتے پہلے تک پاکستان اپنی تاریخ کے سب سے تباہ کن سیلاب کی زد میں تھا، پورے ملک کا ایک تہائی حصہ متاثر ہوا، ابھی تک کئی اضلاع میں پانی کھڑا ہے اقوام متحدہ نے جو نئی رپورٹ جاری کی ہے اس کے مطابق ابھی تک صرف 15 سے 20 فیصد متاثرین تک امداد پہنچ سکی ہے یعنی باقی اسی فیصد متاثرین بے یارومددگار ہیں۔

 دوسری طرف نیشنل میڈیا میں متاثرین کی کوئی خبر نہیں ہے وہاں بیماریوں اور بھوک سے روزانہ درجنوں اموات ہو رہی ہیں مگر سکرینوں پر صرف سیاست چل رہی ہے، مارچ ہو رہا ہے اور ساری سیاست کرسی کے ارد گرد گھوم رہی ہے۔

پوسٹ ڈیزاسٹر نیڈز ایسیسمنٹ رپورٹ جسے وزارت منصوبہ بندی و ترقی، ایشیائی ترقیاتی بینک، یورپی یونین، عالمی بینک اور اقوام متحدہ نے مل کر جاری کی ہے اس کے مطابق سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ 14.9 ارب ڈالر ہے جبکہ بحالی اور تعمیر نو پر 16.3 ارب ڈالر سے زائد کی خطیر رقم درکار ہو گی۔

سیلاب سے مجموعی طور پر تین کروڑ 30 لاکھ لوگ متاثر ہوئے، مرنے والوں کی تعداد 1730اور بے گھر ہونے والوں کی تعداد 80 لاکھ ہے، 12 لاکھ مویشی ہلاک ہوئے ہیں۔ سب سے زیادہ متاثر ہونے والا صوبہ سندھ ہے جس کا 70 فیصد علاقہ متاثرہ ہے۔ ابھی تک دادو، خیر پور، میرپور خاص کے اضلاع میں پانی کھڑا ہے جہاں گندم کی فصل کاشت نہیں ہو سکے گی۔ غربت کی شرح میں مزید چار فیصد اضافہ ہوا ہے اور مجموعی طور پر 91 لاکھ مزید لوگ خط غربت سے نیچے چلے گئے ہیں۔ مجموعی قومی پیداوار بھی شدید متاثر ہوئی ہے اور اس میں 2.2 فیصد کمی کا اندیشہ ہے۔

لوگوں کی زندگیاں بچانا سب سے بڑا چیلنچ

سندھ کے 32 اضلاع میں ساڑھے تین لاکھ لوگوں کو ملیریا اور سات لاکھ کو ڈائریا کی تشخیص ہوئی ہے۔ بنیادی صحت کا نظام متاثر ہونے کی وجہ سے متاثرین کو دوائیاں تو درکنار پینے کے لیے صاف پانی بھی میسر نہیں ہے، صحت و صفائی کی ابتر ہوتی ہوئی صورت حال میں سات لاکھ 70 ہزار لوگ جلدی امراض کا شکار ہو چکے ہیں۔

نیشنل نیوٹریشن سروے کے مطابق 16لاکھ بچے عدم غذائیت کا شکار ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے آبادی یو این ایف پی اے کے مطابق سیلاب زدہ علاقوں میں 16لاکھ خواتین زچگی کے عمل سے گزر رہی ہیں۔ صحت عامہ کے مسائل اور بڑھتی ہوئی غربت کی وجہ سے زچہ و بچہ کی زندگیاں شدید خطرے میں ہیں۔

اقوامِ متحدہ کی کمیونیکیشن آفیسر آمنہ کمال نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان میں متاثرین سیلاب کا چیلنج روز بروز شدید ہوتا جا رہا ہے، متاثرین کے پاس نہ رہنے کو چھت ہے نہ کھانے کو کچھ ہے۔ شروع کے چند ہفتوں میں امداد کا کچھ حصہ ان تک پہنچا ہے لیکن اب لگتا ہے انہیں بھلا دیا گیا ہے عالمی اداروں کے پاس بھی ضرورت سے بہت کم فنڈز موجود ہیں، متاثرہ علاقوں میں جتنی خوراک کی ضرورت ہے ورلڈ فوڈ پروگرام کے پاس اتنے وسائل اکٹھے نہیں ہو رہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’سب سے بڑا چیلنج 16لاکھ وہ خواتین ہیں جو امید سے ہیں جب ماں کو خوراک ہی نہیں مل رہی تو پیٹ کے اندر بچے کی پرورش کیسے ہو گی؟ دونوں کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ عارضی پناہ گاہوں سے متاثرین کو نکالا جا رہا ہے اب واپس وہ کہاں جائیں گے، ان کے کچے گھر معدوم ہو چکے ہیں ان کی فصلیں اور جانور جو انہیں زندہ رکھتے تھے وہ موجود نہیں ہیں، اس لیے پناہ گاہوں سے نکالنے کے بعد وہ سڑکوں پر آگئے ہیں جہاں پرائیویسی نہ ہونے کی وجہ سے خواتین کی ہراسانی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’70 لاکھ خواتین اور بچے افلاس کا شکار ہیں، 55 لاکھ کو پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں۔ چھوٹے بچے گاڑیوں کے نیچے آ رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کو خدشہ ہے کہ قوم اور عالمی برادری نے ساتھ نہ دیا تو سردیوں کے اگلے تین مہینوں میں بھوک اور بیماریوں سے 20 لاکھ متاثرین موت کے منہ میں چلے جائیں گے۔‘

پاکستان کے خیراتی ادارے کیا کر رہے ہیں؟

اس میں شک نہیں کہ سیلاب زدگان کی اشک شوئی کے لیے شروع میں ملک گیر مہم شروع ہوئی، خیراتی اداروں نے ریلیف ورک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ پاکستان ہیومن ٹیرین فورم جو تمام خیراتی اداروں کی نمائندہ تنظیم ہے، اس کے مطابق انہوں نے 82 اضلاع میں 30 لاکھ لوگوں کی مدد کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حکومت کی جانب سے بےنظیر انکم سپورٹ فنڈ سے 27 لاکھ گھرانوں کو 25 ہزار روپے فی گھرانہ کے حساب سے امداد دی گئی لیکن اب یہ سپلائی لائن شدید متاثر ہو چکی ہے جس کی وجہ عطیات کی فراہمی میں کمی بتائی جا رہی ہے۔

الخدمت فاؤنڈیشن کے سربراہ محمد عبدالشکور نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’میڈیا کی جانب سے متاثرین پر توجہ نہیں دی جا رہی جس کی وجہ سے ’آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل والا‘ معاملہ ہے، اس لیے ہمیں اس موقعے پر جب متاثرین کی مدد کے لیے عطیات کی شدید ضرورت ہے کہ ہم متاثرین کی صحت عامہ، خوراک اور اور بحالی کے پروگراموں پر عمل کر سکیں تو اس کے لیے ہمارے پاس مطلوبہ فنڈز موجود نہیں۔ ہمیں دیے جانے والے عطیات میں تقریباً 50 فیصد کمی ہو چکی ہے، جب میڈیا متاثرین کو چھوڑ کر سیاست کے پیچھے لگ جاتا ہے تو خیراتی اداروں کی سپلائی چین بھی رک جاتی ہے۔‘

حکومت کیا سوچ رہی ہے؟

ایک طرف پاکستان کو سیلاب سے براہ راست 16 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا ہے تو دوسری جانب سے سیلاب سے مجموعی طور پر پاکستانی معیشت کو 30 ارب ڈالر کا جھٹکا لگا ہے، کرونا سے پہلے ہی معیشت خراب ہے اور عالمی سطح پر جاری کساد بازاری کی وجہ سے بھی پاکستان شدید معاشی ابتری کا شکار ہے آئی ایم ایف نے پہلے ہی اس کے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام پر 40 فیصد کٹوتی لگائی ہوئی ہے۔ ان حالات میں پاکستان کے لیے بحالی اور تعمیر نو کا چیلنچ مشکل تر ہو چکا ہے۔

وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے آئی ایم ایف کی اس شرط کو نا منصفانہ قرار دیا ہے دوسری جانب وزیراعظم شہباز شریف عالمی اداروں کی جانب سے قرضوں کی ادائیگی میں نرمی کا مطالبہ کر رہے ہیں تاکہ پاکستان اپنے وسائل کو متاثرین کی بحالی اور قومی ڈھانچے کی تعمیر نو کی جانب موڑ سکے۔

وزیراعظم شہباز شریف ماحولیات کی عالمی کانفرنس جو چھ سے 16 نومبر کو مصر کے شہر شرم الشیخ میں ہونے جا رہی ہے، اس میں شرکت کے لیے جا رہے ہیں جس میں سو سے زیادہ سربراہان مملکت شرکت کر رہے ہیں۔ وہاں عالمی مالیاتی اداروں کے سربراہان بھی موجود ہوں گے جن کے سامنے وہ پاکستان کا کیس پیش کریں گے کیونکہ پاکستان کا کردار عالمی ماحولیاتی آلودگی میں ایک فیصد سے بھی کم ہے، دوسری جانب وہ ماحولیاتی آلودگی سے شدید متاثرہ دس ممالک میں شامل ہے۔

وفاقی وزیر موسمیاتی تبدیلی شیری رحمان نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا ہے کہ پاکستان کو کانفرنس کے ایجنڈے کی تیاری میں شامل کیا گیا ہے اور امید ہے کہ پاکستان اپنا کیس بنانے میں کامیاب ہو جائے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات