جعفرآباد: ’سیلاب متاثرین راشن لینے آئے تھے، بدلے میں گولیاں ملیں‘

بلوچستان کے ضلع جعفرآباد میں این جی او کی جانب سے سیلاب متاثرین میں راشن کی تقسیم کے دوران سکیورٹی اہلکار کی فائرنگ سے ایک شخص ہلاک ہوگیا، جس کا مقدمہ درج کرلیا گیا۔

سکیورٹی اہلکار کی فائرنگ کے نتیجے میں جعفرآباد میں ایک شخص کی ہلاکت کے واقعے کے بعد سیلاب متاثرین اور علاقہ مکینوں نے مرکزی شاہراہ پر احتجاج کیا اور دھرنا دیا(فوٹو: حمیدہ نور)

بلوچستان کے ضلع جعفرآباد میں پولیس نے سیلاب متاثرین میں راشن کی تقسیم کے دوران جمعرات کو سکیورٹی اہلکار کی فائرنگ سے ایک متاثرہ شخص کی ہلاکت کا مقدمہ درج کرکے تفتیش کا آغاز کردیا ہے۔

واقعے کا مقدمہ ضلع جعفرآباد کے پولیس تھانہ کیٹل فارم میں دفعہ 302 کے تحت اینٹی ٹیررسٹ فورس (اے ٹی ایف) کے اہلکاروں کے خلاف درج کیا گیا۔

ہلاک ہونے والے نوجوان کے کزن عامر علی کی جانب سے درج کروائی گئی ایف آئی آر میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ’کیٹل فارم تھانے کی حدود میں این جی اوز کی طرف سے راشن تقسیم کیا جارہا تھا کہ اس دوران بھگدڑ مچ گئی، جس کے بعد اے ٹی ایف کے اہلکاروں نے ایس ایچ او کی موجودگی میں فائرنگ کردی۔‘

عامر علی کے مطابق فائرنگ کی زد میں آکر ان کے چچا زاد بھائی نوریز زخمی ہوئے، جنہیں سول ہسپتال ڈیرہ اللہ یار منتقل کیا گیا لیکن وہ زخموں کی تاب نہ لاکر چل بسے۔

واقعے کے بعد سیلاب متاثرین اور علاقہ مکینوں نے مرکزی شاہراہ پر احتجاج کیا اور دھرنا دیا، جسے بعدازاں مقدمے کے اندراج کے بعد ختم کردیا گیا۔

کیٹل فارم کے ایک سرکردہ رہنما دین محمد مستوئی نے انڈپینڈنٹ اردو کو فون پر بتایا کہ ’مقتول کا تعلق ہمارے قبیلے سے ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم یہاں پر احتجاج کے لیے جمع ہوئے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’موقعے پر موجود لوگوں نے مجھے بتایا کہ فائرنگ ایک اہلکار کی طرف سے کی گئی، جو اینٹی ٹیررسٹ فورس کا اہلکار بتایا جاتا ہے۔‘

دین محمد مستوئی نے مزید بتایا کہ ایس ایس پی جعفر آباد اور دیگر حکام نے دھرنے کے مقام پر آکر ہمیں یقین دہانی کروائی ہے کہ قانون سے کوئی بھی بالاتر نہیں اور جو بھی اس واقعے میں ملوث ہوا، اسے قانون کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔

دین محمد کے مطابق: ’احتجاج کرنے والوں کا مطالبہ بھی یہی ہے کہ فائرنگ کرنے والے اہلکار کے خلاف مقدمہ درج کرکے اسے سزا دی جائے۔‘

سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو میں بھی چند لوگوں کو دیکھا جاسکتا ہے، جن میں سے ایک کا کہنا تھا کہ ’ہم لوگ یہاں راشن لینے کے لیے آئے تھے، اس دوران پولیس نے فائرنگ کی اور ایک نوجوان نوریز مستوئی ہلاک ہوا۔‘

اسی طرح ایک اور ویڈیو میں مظاہرے میں شریک ایک شخص بتا رہا ہے کہ ’ایک این جی او نے ہمیں راشن لینے کے لیے بلایا تھا۔ ہم سب نے ٹوکن بھی لیے تھے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ ’سیلاب متاثرین یہاں راشن لینے کے لیے آئے تھے، لیکن اس کے بدلے میں ان کو گولیاں ملی ہیں۔ اب ہم یہاں پر اس واقعے کے خلاف پرامن طریقے سے احتجاج کررہے ہیں۔‘

دوسری جانب کیٹل فارم تھانے کے ایس ایچ او محبوب احمد جمالی نے  انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ فائرنگ کے واقعے کا مقدمہ اے ٹی ایف کے اہلکاروں کے خلاف درج کرلیا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ جمعرات کو ایک این جی او نے سیلاب متاثرین میں راشن تقسیم کرنا تھا، جس کے لیے یہ لوگ 12 بجے یہاں پہنچے تھے اور جب تک سامان اتارا گیا تو تین بجے کا وقت ہوگیا تھا۔

محبوب احمد نے بتایا کہ ’این جی او والوں نے راشن دینےکے لیے سات سو لوگوں کو ٹوکن جاری کیے تھے۔ اب ہر بندے کے ساتھ ایک دو مزید لوگ بھی آتے ہیں۔ اس دوران آس پاس اور قریبی دیہات کے لوگ بھی جمع ہونا شروع ہوگئے اوربھیڑ لگ گئی، یعنی تقریباً دو سے تین ہزار کے قریب لوگ جمع ہوگئے، جس پر بھگدڑ مچ گئی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایس ایچ او نے مزید بتایا کہ اس دوران لوگوں کو منتشر کرنے کے لیے  اے ٹی ایف کے اہلکار نے فائرنگ کردی اور بدقسمتی سے ایک گولی ایک نوجوان کو لگی، جس سے وہ ہلاک ہوگیا۔ 

بقول محبوب علی: ’میں نے فائرنگ روکنے کی کوشش کی اور اس دوران اہلکاروں کو روکتا بھی رہا۔ میں نے اپنے اہلکاروں کو صبح ہی ہدایت دی تھی کہ کوئی بھی راشن کی تقسیم کے دوران اسلحے کے ساتھ شامل نہں ہوگا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’بعض لوگوں نے واقعے کو غلط رنگ دینے کی کوشش کی۔‘

محبوب علی کے بقول: ’ہم لوگ این جی اوز والوں کو پہلے بتاتے رہتے ہیں کہ ہمارے لوگوں کے مزاج کے مطابق چلیں تو مسائل پیدا نہیں ہوں گے۔ راشن اگر تقسیم کرنا ہے تو کم از کم دو سے تین سو لوگوں کو ایک وقت میں دے سکتے ہیں۔‘

دوسری جانب ایک سماجی کارکن حمیدہ نور نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ راشن کی تقسیم کے لیے ایک تو سڑک کے مقام کو منتخب کیا گیا تھا، جہاں ویسے ہی رش ہوتا ہے، دوسرا لوگوں کو صبح آٹھ بجے سے بلایا گیا جبکہ راشن کی تقسیم کا عمل چار بجے شروع کیا گیا۔ اگر درست طریقے سے یہ عمل کیا جاتا اور وقت پر سلسلہ شروع کیا جاتا تو شاید یہ نوبت نہ آتی۔‘

بلوچستان کے ضلع جعفرآباد اور نصیر آباد سمیت صحبت پور سیلاب کی وجہ سے شدید متاثر ہوئے ہیں، جہاں پر سیلابی پانی اب تک کھڑا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان