سوئٹزر لینڈ جانے کی بجائے سیلاب زدگان کی مدد کرنے والا جوڑا

شیراز اور ان کی اہلیہ پریا نے بتایا کہ وہ تفریح کے لیے سوئٹرز لینڈ جانے کی تیاری کر چکے تھے لیکن جب انہیں پاکستان میں سیلاب کا پتہ چلا تو وہ متاثرین کی مدد کے لیے یہاں آ گئے۔

پاکستان میں سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے جہاں بہت سے سرکاری ادارے، فلاحی تنظیمیں اور  دیگر افراد کام کر رہے ہیں، وہیں اس وسیع تباہی نے برطانیہ میں جنم لینے والے پاکستانی نژاد میاں بیوی کو اپنے سات سالہ بیٹے سمیت پاکستان آنے پر مجبور کر دیا۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ہیلتھ کیئر کے شعبے سے وابستہ شیراز علی اور ان کی اہلیہ پریا رسول برطانیہ میں  ’احساس کیئر‘ کے نام سے بزرگ افراد کو گھر پر دیکھ بھال کی خدمات فراہم کرنے کا ادارہ  چلا رہے ہیں۔

شیراز نے بتایا کہ ستمبر کے آغاز میں  چھٹیاں منانے کے لیے وہ اپنے اہل خانہ کے ہمراہ سوئٹزر لینڈ جانے کے لیے بکنگ کروا چکے تھے کہ انہیں سوشل میڈیا پر پاکستان میں سیلاب سے بڑی تباہی کا علم ہوا۔

شیراز کے مطابق یہ حالات دیکھ کر انہوں نے فیصلہ کیا کہ ان پیسوں کو سیلاب زدگان کی مدد کے لیے خرچ کرنا چاہیے۔

’یوں ہم نے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا۔ ہمیں رشتہ داروں اور دوستوں نے سپورٹ کیا تاکہ ہم زیادہ سے زیادہ فنڈز اکٹھے کر سکیں۔ ہم صورت حال کو بہتر کرنے کے لیے اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں۔‘

پریا رسول کے مطابق جب ان کے گھر والوں اور دوستوں کو پتہ چلا کہ وہ سیلاب زدگان کی مدد کے  لیے پاکستان جا رہے ہیں تو وہ بہت مددگاراور خوش تھے لیکن خاندان کے بعض لوگ سکیورٹی خدشات کا سوچ کر پریشان بھی تھے۔

انہوں نے بتایا کہ وہ اب تک 10 ہزار پاؤنڈ  سیلاب زدگان کی مدد کے لیے عطیہ کر چکے ہیں۔

’ہم مزید  فنڈ ریزنگ کر رہے ہیں اور اپنی ذاتی رقم بھی خرچ کر رہے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ 12 ستمبر سے اب تک ان کی ٹیمیں سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پانچ ہزار سے زائد مریضوں کو مفت علاج اور ادویات فراہم کر چکی ہیں۔

مستقبل کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ وہ سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے انہیں معیاری  اور کم لاگت میں گھر فراہم کرنے پر کام کر رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ ہم دیکھ رہے ہیں کہ کیسے ان کے لیے آمدن کے ذرائع پیدا کیے جا سکتے ہیں تاکہ وہ اپنی مدد خود کر سکیں۔ ہم لوگوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں، ان کی ہمت بڑھانا چاہتے ہیں تاکہ وہ آگے بڑھ سکیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ وہ  شدید خواہش کے باوجود خود سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں نہیں جا سکے کیونکہ ان کے بیٹے کو پاکستان کے موسمی حالات سے مطابقت پیدا کرنے میں دشواری کا سامنا ہے۔

انہوں نے سیلاب متاثرین کی مدد کے علاوہ فیصل آباد کے علاقے غلام محمد آباد میں کم وسیلہ طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین کے لیے ’احساس سکول‘ کے نام سے ایک مرکز بھی قائم کیا ہے، جہاں خواتین کو ٹیلرنگ اور بیوٹیشن کے مفت کورسز کروانے کے علاوہ دوران تربیت سلائی اور میک اپ کی مشق کے لیے سلائی مشینیں، فیبرک اور بیوٹیشن کٹس بھی مفت فراہم کی گئی ہیں۔

انہوں نے بتایا: ’یہ سکول ہمارے خاندان کے ہی ایک فرد نے قائم کیا تھا جسے ہم نے اڈاپٹ کرلیا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ وہ اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ اس ماڈل کو کس طرح سیلاب سے متاثرہ افراد کی مدد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان