کوئٹہ کیفے کی مقبولیت، اصل کہانی کیا ہے؟

جڑواں شہروں سمیت پنجاب کے تمام بڑے شہروں میں کوئٹہ کیفے کی چین جس تیزی سے مقبول ہوئی ہے اس کے پیچھے طرح طرح کی کہانیاں بیان کی جاتی ہیں۔

15 جون 2022 کی اس تصویر میں اسلام آباد کے ایک ڈھابے پر دودھ پتی چائے پیالیوں میں ڈالی جا رہی ہے (اے ایف پی)

ہندوستان کے قومی مشروبات انگریزوں کی آمد سے پہلے لسی اور سردائی تھے۔ سردائی میں بادام، خشخاص اور بعض شوقین بھنگ ملا کر نوش جاں کیا کرتے تھے۔

جب انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کرلیا اور اس دوران انہوں نے چائے کی عالمی تجارت پر بھی اجارہ داری حاصل کرلی تو انہوں نے ہندوستانیوں کو اس کام پر لگانے کے لیے کئی سال مارکیٹنگ کی اور ریلوے سٹیشنوں، بازاروں اور میلوں ٹھیلوں میں مفت چائے کے سٹال لگائے گئے۔

ایلیٹ کلاس نے اسے فیشن کے طور پر لسی اور مشروب سے بدل لیا اور پھر سب طبقے ہی اس رنگ میں ڈھلتے گئے۔ آج کوئی گھر اور فرد ایسا نہیں جو دن میں ایک دو بار چائے نہیں پیتا اور اس فیشن میں کوئٹہ کیفے کی چائے کو خاص مقام حاصل ہے۔

جڑواں شہروں سمیت پنجاب کے تمام بڑے شہروں میں کوئٹہ کیفے کی چین جس تیزی سے مقبول ہوئی ہے، اس کے پیچھے طرح طرح کی کہانیاں بیان کی جاتی ہیں۔

کوئٹہ چائے کے ڈھابوں پر بیٹھے صاحب الرائے لوگ اسے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے بلوچوں کی قومی دھارے میں شمولیت کی جانب ایک قدم گردانتے ہیں تو عام لوگ سمجھتے ہیں کہ اس چائے میں کوئی نشہ آور شے شامل ہے، جبھی تو یہ چین چند سالوں میں اتنی پھیل گئی ہے کہ کہ شاید ہی کوئی جگہ ایسی رہ گئی ہو جہاں کوئٹہ کیفے موجود نہ ہو۔

بہرحال یہ ایک حقیقت ہے کہ کوئٹہ چائے کے کیفے نے آکر ماحول  کو بدل دیا ہے۔ وہ لوگ بھی جو چائے کے لیے پہلے اچھی نوعیت کے ہوٹلوں کا رخ کرتے تھے، وہ بھی اب کوئٹہ کیفے پر مل بیٹھتے ہیں، بلکہ اکثر کیفے تو 24 گھنٹے کھلے رہتے ہیں۔ ان ہوٹلوں کی مقبولیت سے پاکستان میں چائے اور ڈھابہ کلچر کو ایک نئی جہت ملی ہے اور ان سے وابستہ لوگوں کو روزگار کی سہولت بھی میسر آئی ہے۔

کہانی دراصل ہے کیا؟

یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ بلوچستان کی آبادی بھی کم ہے اور وہاں روزگار کے ذرائع بھی محدود ہیں۔ پھل، سبزیوں اور ڈرائی فروٹ کی فروخت سے ایک بڑی آبادی کا روزگار وابستہ ہے لیکن بلوچستان میں پچھلے 60 سالوں کے دوران 18 قحط آئے ہیں۔

1997 سے 2003 کے دوران آنے والا قحط نہ صرف سب سے طویل عرصے کا تھا بلکہ اس نے لوگوں کو ہجرت پر بھی مجبور کر دیا۔ ان متاثرین کی پسندیدہ منزل کراچی ٹھہری اور انہوں نے یہاں آ کر چائے خانے کھولے، جو جلد ہی مقبول ہو گئے، مگر کراچی میں جاری نسلی تصادم کی وجہ سے یہ لوگ وہاں سے بھی نقل مکانی کر کے پنجاب کے مختلف شہروں میں آنا شروع ہو گئے، جن میں راولپنڈی اور اسلام آباد سر فہرست تھے۔

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس نے گذشتہ ہفتے جڑواں شہروں میں کوئٹہ کیفے پر ایک تحقیقی رپورٹ جاری کی ہے، جس کے مطابق راولپنڈی میں پہلا کوئٹہ کیفے کمرشل مارکیٹ میں 2007 میں امان اللہ خان نے کھولا جو اس سے پہلے کراچی میں کوئٹہ کیفے کی سب سے بڑی چین چلا رہے تھے۔

ان کا یہ کیفے چائے کے شوقین افراد بالخصوص طلبہ میں بہت مقبول ہوا۔ آج صرف اسلام آباد کے ایف سیکٹرز میں 25، جی سیکٹرز میں 61، آئی سیکٹرز میں 18، دیگر سیکٹرز میں 17 اور چک شہزاد کھنہ پل سے ملحقہ علاقوں میں 55 کوئٹہ کیفے ہیں جبکہ دیگر ہاؤسنگ سوسائٹیوں کا ڈیٹا اس رپورٹ میں شامل نہیں ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2007 سے 2012 تک پہلے پانچ سالوں میں صرف ایک کوئٹہ کیفے کمرشل مارکیٹ میں ہی موجود تھا، تاہم 2020 تک جڑواں شہروں میں ان کی تعداد 810 تک جا پہنچی، لیکن پھر کرونا بحران کی وجہ سے کئی کیفے بند ہو گئے لیکن اب بھی جڑواں شہروں میں 700 کے قریب کوئٹہ کیفے موجود ہیں۔

ان میں سے صرف 11 فیصد کیفے کے مالکان مقامی ہیں باقی 89 فیصد کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ ہر کیفے میں اوسطاً 14 افراد کام کرتے ہیں جن میں سے اوسطاً دو مقامی اور 12 کا تعلق بلوچستان سے ہوتا ہے۔ اس طرح صرف راولپنڈی، اسلام آباد میں کوئٹہ کیفے کی بدولت 9800 افراد کو روزگار کی سہولت میسر آئی ہے۔ ان کی دو یونین بھی ہیں، جن کا زیادہ تر کردار قیمتوں کے تعین تک ہی محدود ہے۔

یہاں کیا کچھ ملتا ہے؟

کوئٹہ کیفے بنیادی طور پر ناشتے کا کیفے ہے، جہاں آپ  کو چائے پراٹھا، آملیٹ اور چنے ملتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی پراٹھوں کی کافی ورائٹی موجود ہے، جن میں سادہ پراٹھا، انڈہ پیزا پراٹھا، چکن پراٹھا، آلو پراٹھا، آلو چیز پراٹھا، ملائی پراٹھا اور باربی کیو پراٹھا وغیرہ شامل ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چائے کی بھی کئی قسمیں ہیں، جن میں گڑ والی، چاکلیٹی، کشمیری چائے اور قہوہ شامل ہیں، لیکن سب کے ریٹ الگ الگ ہیں اور ان کا دارومدار کیفے کی لوکیشن پر ہے۔ جہاں کرائے زیادہ ہیں وہاں ریٹ زیادہ ہیں اور جہاں کرائے کم ہیں وہاں ریٹ مناسب ہیں۔

کوئٹہ کیفے کے مالکان الگ الگ ہیں تاہم ان کی کرسیوں کی کلر سکیم زیادہ تر سرخ ہی ہوتی ہے۔ اسی طرح ان کے چائے بنانے کے برتن بھی منفرد ہیں جنہیں افغانستان سے درآمد کیا جاتا ہے۔ ان کے سٹال پر چائے بنانے کی مختلف کیتلیاں رکھی ہوتی ہیں، جن میں ہر وقت پانی ابلتا رہتا ہے۔

ان کی چائے بنانے کی ترکیب بھی عمومی چائے خانوں سے مختلف ہے۔ پی ڈبلیو ڈی سوسائٹی میں ایک کیفے کے مالک نور خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’مہنگائی کی اصل وجہ کرایوں کا بہت زیادہ ہونا ہے، جس کا مقابلہ ہم کیفے کو 24 گھنٹے چلا کر کرتے ہیں تاکہ ڈبل شفٹ میں کام کر کے لوگوں کو سستی اور مناسب سروس مہیا کر سکیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ہمارے زیادہ تر گاہک طلبہ اور کالنگ سینٹروں پر کام کرنے والے نوجوان ہیں جنہیں یہاں وہ تمام کچھ کھانے کو مل جاتا ہے جو وہ مناسب بجٹ میں چاہتے ہیں۔

انتظامیہ کا رویہ کوئٹہ کیفے کے ساتھ کیسا ہے؟

پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کی رپورٹ کے مطابق چائے کے ان ہوٹلوں کی ریگولیشنز اور مانیٹرنگ میں کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی، راولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی، پنجاب فوڈ اتھارٹی، پولیس اور ضلعی انتظامیہ، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹ، لیبر ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ ذمہ دار ہیں۔

چونکہ یہ کیفے زیادہ تر ریگولیشنز پر پورا نہیں اترتے، اس لیے مبینہ طور پر یہ کیفے متعلقہ اداروں کو رشوت دیتے ہیں، تاہم اس کی تصدیق نہیں ہو سکی۔

اس سلسلے میں جب انڈپینڈنٹ اردو نے اسلام آباد کے ایک کیفے مالک سے اس کی تصدیق چاہی تو انہوں نے صرف اتنا کہا: ’صاحب سب کے ساتھ پیٹ لگا ہوا ہے۔ ہم بھی کما رہے ہیں اور ہمارے جو اوپر ہیں وہ  بھی کماتے ہیں،‘ تاہم انہوں نے اس کی درست شرح نہیں بتائی کہ یہ کتنی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ