بلوچستان میں نئے اضلاع کے قیام کا عمل جاری ہے اور پشتون اکثریتی آبادی پر مشتمل ضلع پشین کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کریا گیا ہے۔
یہ علاقہ بلوچستان کے شمالی علاقوں میں شامل ہے جو کوئٹہ کے شمال میں 57 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ وسیع ضلع ہے جس کی سرحدیں کوئٹہ، قلعہ عبداللہ، افغانستان، زیارت، لورالائی، قلعہ سیف اللہ سے ملتی ہیں۔
صوبائی حکومت کے محکمہ ریونیو کی طرف سے 21 نومبر کو جاری نوٹیفکیشن کے مطابق ضلع پشین کو دو انتظامی حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے جو ضلع پشین اور خانوزئی ہوں گے۔
نوٹیفکیشن کے مطابق: ’خانوزئی برشور پر مشتمل الگ ضلع بنادیا گیا ہے۔ جس میں خانوزئی، برشوراور چار تحصیلیں، خانوزئی، بوستان، نانا صاحب اور سب تحصیل برشور شامل ہیں۔ اسی طرح ضلع پشین میں تحصیل حرمزئی، تحصیل سرانان کو شامل کیا گیا ہے۔
یہ معاملہ منظرعام پرآنے کے بعد بہت سے لوگوں کے لیے خوشی اور بعض لوگوں کےلیے ناخوشگوار ثابت ہوا۔ جس پربرشور کے لوگوں نے ایک ریلی نکالی اور بلوچستان اسمبلی کے سامنے دھرنا بھی دیا۔
مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ ضلع پشین کی تقسیم میں برشور کے ساتھ اںصاف نہیں کیا گیا۔ اگر اسے ضلع نہیں بنایا جاسکتا تھا تو کم از کم ضلعی ہیڈ کوارٹر کادرجہ ہی دیا جاتا۔
اس کی مخالفت کرنے والوں میں تحصیل برشور کے جمعیت علما اسلام کے امیر حافظ محمد شاہد بھی شامل ہیں۔ جو اس فیصلے کو نااںصافی پر مبنی سمجھتے ہیں۔
حافظ شاہد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہمارا علاقہ چوں کہ ایک وسیع علاقے پر مشتمل ہونے کے ساتھ پہاڑی بھی ہے۔ ہم بڑی آبادی اور رقبے کے نسبت سے ضلع کے حقدار ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ہم نے ضلع بنانے کے وقت تمام متعلقہ اداروں اور دیگر منتخب نمائندوں کو بھی اپنے تحفظات سے آگاہ کیا تھا۔ لیکن نوٹیفکیشن میں ہمارے ساتھ کیے گئے وعدوں کے برعکس فیصلہ سامنے آیا ہے۔ اس لیے ہم احتجاج کررہے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ضلع پشین سے ہی تعلق رکھنے والے سیاسی و سماجی کارکن سابق وزیراعلیٰ بلوچستان کے مشیر رہنے والے عظیم کاکڑ اس فیصلے کو مثبت عمل سمجھتے ہیں۔
عظیم کاکڑ نے انڈپینڈںٹ اردو کو بتایا کہ ضلع پشین بلوچستان کا تیسرا بڑا ضلع تھا اور آبادی آٹھ لاکھ تھی لہذا تقسیم سے عوام کو ہر اعتبار سے فائدہ ہوا ہے۔ میڈیکل کالجز کی سیٹیں ہوں یا انجینیئرنگ کالجز کی، کیڈٹ کالجز ہو یا ضلعی دیگر کوٹہ ہر اعتبار سے اچھا عمل ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں نے جہاں فوائد کا ذکر کیا وہ انتظامی فوائد، عوامی سہولیات، نئے سب تحصیلوں کا قیام، غیر فعال سب ڈویژنز کی فعالی شامل ہے۔ یہ امید بھی پیدا ہو چکی کہ ضلع کاریزات برشور، پشین، قلعہ عبداللہ اور چمن کے ملاپ سے نیا ڈویژن بھی قائم ہوگا۔‘
بلوچستان کے کراچی سے متصل ضلعے لسبیلہ کی بھی دو حصوں میں تقسیم سیاسی کشمکش کاشکار ہوئی ہے اور سابق وزیراعلیٰ جام کمال نے اس کے خلاف عدالت سے بھی رجوع کیا ہے۔
ادھر تجزیہ کار اور بلوچستان کے پارلیمانی تناظر پر لکھی جانے والی کتاب کے مصنف جعفر خان ترین سمجھتے ہیں کہ نئے اضلاع کا بننا وقت کی ضرورت اور عوام کے مسائل کا حل بھی ہے۔
جعفر ترین نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بلوچستان ایک وسیع رقبے پر مشتمل صوبہ ہے جس کی آبادی بکھری ہوئی ہے۔ یہاں پر صوبہ کا درجہ ملنے کے بعد بتدریج اضلاع کی تعداد میں اضافہ ہوا لیکن اب بھی یہ مطالبہ ہورہا ہے کہ مزید نئے انتظامی یونٹ بنائے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ نئے اضلاع بنانے سے حکومت کو مزید اخراجات کرنے پڑیں گے۔ جن میں بہت ساری پیچیدگیاں سامنے آتی ہیں۔ سیاسی مداخلت بھی ہوتی ہے۔ انتظامی مسائل بھی جنم لیتے ہیں۔‘
جعفر نے بتایا کہ ’ایک لوکل سرٹیفکیٹ کے اجرا سے لے کر تحصیل کے کسی معمولی کام کے لیے شہریوں کو بہت زیادہ سفرکرنا پڑتا ہے۔ اس کی مثال ہم یہ لے سکتے ہیں کہ کوئٹہ کے قریب زرغون غر کے مکین کسی مسئلے کےلیے ضلعی ہیڈ کوارٹر جانے چاہیں تو وہ پہلے کوئٹہ، پھر پشین اور زیارت کے انتظامی حدود سے گزر کر اپنے ضلعی ہیڈ کوارٹر ہرنائی پہنچتے ہیں۔‘
نئے اضلاع کیوں بننے چاہیں؟
جعفرترین کا کہنا تھا کہ نئے اضلاع بننے کی ضرورت اس وجہ سے بھی ہے کہ اس سے روزگار کے مواقع بڑھتے ہیں۔ انتظامی مسائل حل ہوتے ہیں۔ انتظامیہ کو اپنی رٹ بحال کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ نئے اضلاع سے نئی حد بندیاں بھی ہونگیں اور اسمبلیوں کی نشستوں میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ پہلے کی حد بندیوں میں کمی آسکتی ہے۔ میڈیکل کالج، فنی تربیت کے ادارے اور دوسرے پروفیشنل ادارے بھی بن جائیں گے۔ ہر علاقے کی مخصوص نشستوں میں اضافہ ہوگا۔
جعفر نے بتایا کہ بلوچ علاقوں کی نسبت پشتون علاقوں میں نئے اضلاع کا مطالبہ عرصے سے اور زیادہ شدت کےساتھ دہرایا جاتا رہاہے۔ 2018 میں عوامی نیشنل پارٹی نے جب بلوچستان عوامی پارٹی کی حمایت کی تو ان کے مشترکہ نکات میں یہ بھی شامل تھا کہ پشون اضلاع میں نئے انتظامی یونٹ اور اضلاع بنائے جائیں گے۔