بلوچستان: کیچ میں ایک اور سکول کو جلا دیا گیا

سماجی کارکن شاری بلوچ کے مطابق حالیہ واقعات میں زیادہ تر بچیوں کے سکولوں کو نشانہ بنایا گیا لیکن بنیادی مقصد تعلیم دشمنی ہے۔

ہیڈ ماسٹر کی مدعیت میں آتش زدگی کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے جس کے بعد تین چار مشتبہ افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے  (تصویر: اسد بلوچ)

بلوچستان کے ضلع کیچ میں گورنمنٹ خان کلگ ہائی سکول دازن تحصیل تمپ کو نامعلوم افراد نے آگ لگا کر تمام سامان، امتحانی فارم، قالین، الماریوں اور دفتری دستاویزات کو جلا کے خاک کر دیا۔ 

یہ واقعہ اتوار کی شب آخری پہر میں پیش آیا۔ دوسرے روز جب نائب قاصد نے سکول کو کھولا تو سب کچھ جلا ہوا پایا۔

متذکرہ سکول کے ہیڈ ماسٹر لیاقت علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’نائب قاصد لیاقت علی نے صبح مجھے بتایا کہ سٹاف روم اور دوسرے کمرے کو آگ لگائی گئی ہے۔ کچھ الماریوں کو بھی توڑنے کی کوشش کی گئی۔ آگ کی وجہ سے طلبہ کے امتحانی فارم، فیس کی رقم، رجسٹر، سروس بکس، میز کرسیاں، قالین اور باقی ریکارڈ جل گیا ہے۔ 

 انہوں نے کہا کہ ابھی تک معلوم نہ ہوسکا کہ یہ کس کی حرکت ہے۔ انتظامیہ اس پر تفتیش کر کے کسی نتیجے پر پہنچ سکتی ہے۔ 

 تمپ کے ایس ایچ او نادل شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہیڈ ماسٹر کی مدعیت میں آتش زدگی کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے جس کے بعد تین چار مشتبہ افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ تفتیش کا سلسلہ جاری ہے۔ 

 ایس ایچ او نادل شاہ کے مطابق ’ابتدائی تحقیقات میں ہم نے دیکھا کہ کسی شخص نے سکول میں گھس کر آگ لگائی ہے۔ سکول کے بچے چھوٹے ہیں۔ کیوں کہ سکول ایک کھلی جگہ پر ہے، مختف پہلوؤں سے ہم واقعے کی تحقیقات کر رہے ہیں۔‘

ضلع کیچ کےعلاقے تمپ سے تعلق رکھنے والی شاری بلوچ سماجی ورکر اور ماہر تعلیم ہیں، وہ گرلز ہائر سکیںڈری سکول تمپ کی ہیڈ مسٹریس بھی ہیں۔   

انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ضلع کیچ میں تعلیمی اداروں کو نذر آتش کرنے کے واقعات سے بچے اور والدین خوف و ہراس کا شکار ہیں۔ اس عمل کے پیچھے منفی اور جاہلانہ سوچ کار فرما ہے۔ اس کا مقصد یہی ہے کہ بچے تعلیم و ترقی اور مثبت سرگرمیوں سے دور ہو جائیں۔ 

’کسی بھی استاد کو مارنا یا تعلیمی اداروں کو جلانا دونوں منفی عوامل ہیں جس کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔‘ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 انہوں نے کہا کہ ’حالیہ واقعات میں زیادہ تر بچیوں کے سکولوں کو نشانہ بنایا گیا لیکن بنیادی مقصد تعلیم دشمنی ہے۔ چاہے سکول لڑکیوں کا ہو یا لڑکوں کا، اس طرح کا عمل کیچ سمیت کہیں بھی ہو درست نہیں ہے۔‘

شاری کے مطابق ’اس وقت ضلع کیچ تعلیم کے لحاظ سے پورے بلوچستان میں اول درجے پر ہے۔ تعلیم کا رجحان اور شوق بہت زیادہ ہے۔ جس کے باعث یہ علاقہ ملک بھر میں تعلیمی لحاظ سے بہتر ضلعوں میں شمار ہوتا ہے۔‘

یاد رہے کہ اس سے قبل گوادر کی تحصیل پسنی میں نامعلوم افراد نے گورنمنٹ گرلز پرائمری سکول کے سٹاف روم کو جلا دیا تھا۔ جس کا مقدمہ بھی ہیڈ مسٹریس کی مدعیت میں درج ہوا ہے۔ 

اس سے قبل 17 اکتوبر کو ضلع کیچ کے علاقے الندورمیں کلکشان نجی مڈل سکول کو نامعلوم افراد نے جلا دیا تھا جس سے فرنیچر اور دوسرا سامان جل گیا تھا۔  

ضلع کیچ بلوچستان کا شورش سے متاثرہ علاقہ بھی ہے جہاں پر فورسز اور تنصیبات پر حملے ہوتے رہتے ہیں۔ جبکہ یہ علاقہ ایرانی سرحد سے بھی قریب ضلع ہے۔ 

سماجی ورکر اور ماہر تعلیم شاری بلوچ کہتی ہیں کہ ’جو لوگ بھی آگ لگانے کے واقعات کے پیچھے ہیں ان کی ذہنیت یہی ہے کہ یہاں سے تعلیم کو ختم کرکے دور جاہلیت کو واپس لایا جائے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان