سوات سکول وین حملہ: ورثا کا دھرنا ختم، مقتول ڈرائیور کی تدفین

دھرنے کے منتظمین میں شامل مظہر آزاد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’پولیس نے لواحقین اور جرگے کے ساتھ وعدہ کیا کہ وہ اس واقعے کی تفتیش کے حوالے سے جرگے اور لواحقین کو وقتاً فوقتاً آگاہ کریں گے۔‘

سوات میں سکول وین پر حملے کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے ڈرائیور حسین احمد کے اہل خانہ اور علاقہ مکینوں کی جانب سے ان کے آبائی علاقے میں دھرنا دیا گیا، جو اب ختم کردیا گیا ہے (سوات اولسی پاسون)

خیبرپختونخوا کے ضلع سوات میں سکول وین پر حملے کے خلاف 38 گھنٹے سے جاری دھرنا ضلعی انتظامیہ اور سوات قومی جرگے کے مذاکرات کے بعد منگل کو ختم کردیا گیا ہے جبکہ لواحقین نے مقتول ڈرائیور کی تدفین کردی ہے۔

پولیس کے مطابق پیر کو گلی باغ کے علاقے میں نا معلوم افراد کی جانب سے سکول وین پر حملے کے نتیجے میں وین ڈرائیور ہلاک ہوگئے تھے جبکہ واقعے میں ایک بچہ بھی زخمی ہوا تھا۔

واقعے کے بعد ڈرائیور حسین احمد کے اہل خانہ اور سوات کی غیر سرکاری تنظیم اولسی پاسون کی جانب سے دھرنا دیا گیا تھا۔

مظاہرین نے حسین احمد کی میت کو دفنانے سے انکار کرتے ہوئے اسے پوری رات کھلے آسمان تلے سڑک پر رکھے رکھا۔

دھرنا متنظمین کے ساتھ گذشتہ روز ایک سرکاری جرگہ بھی مذاکرات کی غرض سے ملا تھا لیکن مذاکرات کامیاب نہیں ہوئے تھے۔ جرگہ منتظمین کا کہنا تھا کہ میت کو تب تک نہیں دفنایا جائے گا جب تک حملے میں ملوث شخص کو گرفتار نہیں کیا جاتا۔ 

بعدازاں منگل کو ہونے والے مذاکرات کے دوسرے دور کے بعد یہ دھرنا ختم کردیا گیا۔

دھرنے کے منتظمین میں شامل مظہر آزاد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ آج پولیس اور سوات قومی جرگے کے مابین مذاکرات ہوئے، جس میں لواحقین بھی موجود تھے۔ 

مظہر نے بتایا کہ ’لواحقین کا ایک مطالبہ یہ تھا کہ پولیس نے اس واقعے کو ذاتی مسئلے کا رنگ دیا تھا، لہذا پولیس اس بیان کو واپس لے، جس پر جرگے میں شامل پولیس افسران نے بتایا کہ ابتدائی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ ذاتی دشمنی کا مسئلہ نہیں تھا۔‘

مظہر کا کہنا تھا: ’پولیس نے لواحقین اور جرگے کے ساتھ وعدہ کیا کہ وہ اس واقعے کی تفتیش کے حوالے سے جرگے اور لواحقین کو وقتاً فوقتاً آگاہ کریں گے۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ جرگے میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ حکومت کی جانب سے مقتول ڈرایئور کے اہل خانہ کو معاوضہ دینے کے ساتھ ساتھ ان کے خاندان کے کسی فرد کو سرکاری نوکری بھی دی جائے گی۔

جرگے اور ضلعی انتظامیہ کے مابین مذاکرات کے بعد دھرنے کو ختم کرنے کا اعلان کیا گیا اور دھرنے کے مقام پر مقتول کی  نماز جنازہ ادا کرنے کے بعد انہیں آبائی قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا۔

’ہفتے میں امن بحال چاہیے ورنہ اسلام آباد میں دھرنا ہوگا‘: سوات کے نشاط چوک میں مظاہرہ

سوات میں حالیہ بد امنی کے واقعات اور خصوصی  طور پر سکول وین پر حملے اور گذشتہ دن سوات بائی پاس روڈ پر باپ بیٹے کے قتل (سی ٹی ڈی پولیس کے مطابق دونوں باپ بیٹا عسکریت پسندی میں ملوث تھے اور افغانستان سے ٹریننگ بھی حاصل کر چکے تھے) کے واقعے کے خلاف مرکزی نشاط چوک میں مظاہرہ کیا گیا، جس میں کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔

مظاہرے میں عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان، پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین، جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان سمیت دیگر سیاسی و سماجی شخصیات نے شرکت کی۔ 

یہ مظاہرہ سوات اولسی پاسون کی جانب سے منعقد کیا گیا تھا۔ 

مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے سوات اولسی پاسون کے سربراہ فواد خان نے بتایا کہ ان کے تین بڑے مطالبات ہیں، جس پر حکومت جلد از جلد عمل کرے۔

فواد کے مطابق: ’پہلا مطالبہ یہ ہے کہ بائی پاس روڈ پر باپ بیٹے کے قتل کی شفاف انکوائری کی جائے اور اس کا مقدمہ درج کیا جائے۔ دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ سکول وین پر حملے میں ملوث افراد کو گرفتار کیا جائے اور تیسرا او اہم مطالبہ سوات میں امن بحالی کا ہے۔‘

انہوں نے مزید بتایا: ’ہم حکومت کو ایک ہفتے کا الٹی میٹم دیتے ہیں کہ سوات میں امن کی بحالی یقینی بنائی جائے اور اگر ایسا نہیں کیا گیا تو ہم اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ اور وہاں دھرنا دیں گے۔‘

واقعے کی تفصیلات:

سوات کے چارباغ پولیس سٹیشن کے ایک اہلکار وحید خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ ایک نجی سکول وین پیر کو گلی باغ کے ایک نجی سکول میں بچوں کو لے کر جا رہی تھی، جس پر راستے میں نا معلوم موٹرسائیکل سواروں نے فائرنگ کردی، جس کے نتیجے میں گاڑی کا ڈرایئور ہلاک جبکہ ایک بچہ زخمی ہوا تھا۔ 

واقعے کے بعد پولیس کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں کہا گیا تھا کہ ’فائرنگ کے نتیجے میں سوزوکی ڈرائیور جاں بحق ہوا، جبکہ ایک بچہ فائرنگ کے زد میں آکر معمولی زخمی ہوا ہے جس کو بروقت طبی امداد کے لئے قریبی ہسپتال پہنچایا گیا جن کی حالت خطرے سے باہر ہے۔‘

پولیس کے مطابق ’سوزوکی میں سکول کے تقریبا 10 سے 11 بچے موجود تھے، جائے وقوعہ پہنچنے پر پہلے سے تاک میں بیٹھے نامعلوم شخص نےسوزوکی ڈرائیور پر فائرنگ کی، فائرنگ کے نتیجے میں سوزوکی ڈرائیور جاں بحق ہوا جبکہ فرنٹ سیٹ پر موجود بچوں میں سے ایک بچہ فائرنگ کے زد میں آکر زخمی ہوا۔‘

پولیس کا کہنا تھا کہ ’نامعلوم شخص کا ٹارگٹ سوزوکی ڈرائیور تھا۔۔۔سوشل میڈیا پر وقوعہ کو سکول کے بچوں کو ٹارگٹ کرنے کا رنگ دیا جا رہا ہے، سوات پولیس جائے وقوعہ پر موجود ہے اور علاقہ میں سرچ آپریشن کا آغاز کیا گیا ہے۔‘

پولیس اہلکا وحید خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پولیس جائے وقوعہ پر پہنچ چکی ہے اور معاملے کو دیکھ رہی ہے جبکہ زخمی بچے کو تحصیل ہسپتال خوازہ خیلہ منتقل کردیا گیا جہاں پر ان کا علاج معالجہ جاری ہے۔ 

سوات میں گزشتہ دو مہینوں سے مختلف دہشت گردی کے واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں۔ گذشتہ مہینے سوات کے کبل علاقے میں امن کمیٹی کے ایک سابق سربراہ ادریس خان پر بھی حملہ ہوا تھا جس میں آٹھ افراد جان سے گئے تھے۔

ان واقعات کے خلاف گذشتہ روز (اتوار) کو سوات اولسی پاسون نامی تنظیم کی جانب سے مظاہرہ بھی کیا گیا تھا جس میں ان کا مطالبہ تھا کہ سوات کو دوبارہ دہشت گردی کی طرف نہ دھکیلا جائے۔

ماضی میں بین الاقوامی سطح پر جس واقعے کو کوریج ملی تھی وہ نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی پر حملہ تھا۔ ملالہ اس وقت لڑکیوں کی تعلیم کے لیے مختلف فورمز پر بولتی تھیں۔

ملالہ پر ٹھیک دس سال پہلے 2012 میں سوات میں اس وقت حملہ ہوا تھا جب وہ چھٹی کے بعد دیگر بچوں کے ساتھ سکول وین میں گھر جا رہی تھیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسی طرح سکول بچوں پر بڑا دہشت گردی کا واقعہ آرمی پبلک سکول پشاور پر حملہ تھا جس میں کم از کم 130 طلبہ جان سے گئے تھے۔ آرمی پبلک سکول حملے کی بین الاقوامی سطح پر مذمت کی گئی تھی۔

یاد رہے کہ سوات میں 2006  کے بعد شروع ہونے والی دہشت گردی کے لہر کے دوران متعدد سکولوں کو بم دھماکوں سے اڑایا گیا تھا جبکہ جنوری 2009 میں تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے لڑکیوں پر تعلیم حاصل کرنے کی مکمل پابندی عائد کی گئی تھی۔  

ریسکیو 1122 سوات کی ترجمان شفیقہ گل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ واقعے کے بعد ابتدائی طبی امداد دینے کے لیے ریسکیو 1122 سے رابطہ کیا گیا تھا اور زخمی بچے کو ہسپتال منتقل کیا گیا۔

شفیقہ نے بتایا کہ سکول وین حملے میں زخمی طالب علم کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی سے ہے جبکہ ڈرایئور کا تعلق سوات سے ہیں۔

طالبان کا موقف

پاکستانی طالبان نے حالیہ دنوں میں دیر اور سوات میں سکول کی گاڑیوں پر حملوں کی مذمت کی ہے۔ ٹی ٹی پی کے ترجمان محمد خراسانی نے کہا کہ دشمن ایسے واقعات کو ’بدامنی‘ کا نام دے کر شاید ایک بار پھر خون کی پیاس بجھانے کی کوشش کر رہا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان