سوات میں طالبان کے نام پر بھتہ مانگنے والے کون ہیں؟

چند روز قبل ٹی ٹی پی نے ایک بیان میں بھتہ مانگنے کی کارروائیوں کو غیر شرعی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا کرنے والوں کا ان کی تنظیم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

تحریکِ طالبان پاکستان کے ارکان اورکزئی ایجنسی میں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

خیبر پختونخوا کے ضلع سوات میں گذشتہ کئی ہفتوں سے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی ) کے نام پر لوگوں سے بھتہ وصولی کے واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں، اور سوات پولیس نے ایسی ہی سرگرمی میں ملوث ایک ملزم کو گرفتار بھی کیا ہے۔ 

یہ واقعہ سوات کے بنڑ پولیس سٹیشن کی حدود میں پیش کیا گیا۔ علاقے کے ایک رہائشی نے تقریباً ایک ماہ قبل پولیس کو اطلاع دی کہ اسے دھمکی آمیز فون کالز موصول ہو رہی ہیں۔

کال کرنے والے مقامی شخص سے بھتے کے طور پر خطیر رقم کا مطالبہ کر رہے تھے، اور ناکامی کی صورت میں ان کو اور ان کے بچوں کو جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جا رہی تھیں۔

 بنڑ پولیس سٹیشن کے اہلکار ہادی حسن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس واقعے کی تفتیش کے لیے سوات پولیس کے افسران پر مشتمل ایک ٹیم تشکیل دی گئی، جس نے ایک ماہ اس کیس پر کام کیا۔

ہادی نے بتایا کہ تفتیشی ٹیم نے تفتیش کے سائنسی طریقہ کار استعمال کرتے ہوئے آخر کار ملزم کو گرفتار کر لیا۔

ملزم کو کیسے گرفتار کیا گیا؟

 ہادی حسن نے بتایا کہ پہلے تفتیشی ٹیم نے جس نمبر سے کال موصول ہوتی تھی، اس کی تفصیلات چیک کیں تو اس کی سم ایک خاتون کے پر رجسٹر تھی۔

تفتیش کے دوران انکشاف ہوا کہ نمبر چوری کیا گیا تھا، اور ملزم نے استعمال کے بعد سم ضائع کر دی تھی۔

ہادی حسن نے مزید بتایا کہ کال کرنے کے لیے استعمال ہونے والے موبائل فون کا آئی ایم ای آئی کی کھوج لگانے پر معلوم ہوا کہ اس میں دوسرے نمبر کی سم بھی استعمال کی گئی تھی۔

تفتیشی ٹیم نے موبائل فون کے آئی ایم ای آئی سے اس کا مقام موجودگی معلوم کیا، اور چھاپہ مار کر ملزم کو گرفتار کر لیا گیا۔ 

ہادی حسن کے مطابق ملزم اس وقت جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی حراست میں ہے۔ 

ملزم کا تعلق ٹی ٹی پی سے ہے؟

پولیس اہلکار ہادی حسن کے مطابق تفتیشی ٹیم نے اس کیس کی تفتیش دہشت گردی کے نقطہ نظر سے کی، تاہم ملزم کو متاثرہ شخص کے سامنے پیش کرنے سے معلوم ہوا کہ وہ انہی کا سابق ملازم تھا۔

متاثرہ شخص کباڑ کے کاروبار سے وابستہ ہے، اور ملزم کچھ عرصہ قبل ان کے پاس ملازمت کرتا تھا، اور اسی دوران دونوں میں لین دین کا تنازع پیدا ہوا۔ 

ہادی حسن نے بتایا کہ ’ملزم کا تعلق ضلع دیر کی تحصیل میدان سے ہے لیکن وہ روزگار کے لیے سوات میں کباڑ کی دکان میں کام کرتا تھا، اور اس کا تعلق ٹی ٹی پی سے نہیں ہے، بلکہ اس نے ٹی ٹی پی کا نام استعمال کیا تھا۔‘

گذشتہ کچھ عرصے سے سوات میں بھتہ وصول کرنے کے واقعات سامنے آ رہے ہیں، اور ایسے ہی ایک واقعے میں ایک غیر سرکاری امدادی تنظیم کے سابق عہدیدار سے بھی ایک کروڑ روپے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

غیر سرکاری تنظیم کے عہدیدار نے پولیس سٹیشن میں درج رپورٹ میں بتایا تھا کہ ان کے گھر کے باہر ایک شخص ان سے ملے اور اپنا تعلق ٹی ٹی پی بتاتے ہوئے بھتے کا مطالبہ کیا اور انکار کی صورت میں جان سے مارنے کی دھکمی بھی دی۔

چند روز قبل ٹی ٹی پی نے ایک بیان میں بھتہ مانگنے کی کارروائیوں کو غیر شرعی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا کرنے والوں کا ان کی تنظیم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

ٹی ٹی پی نے بیان میں ایک نمبر بھی جاری کیا تھا جس پر بھتہ وصولی کے متاثرین کال شکایت درج کرا سکتے ہیں۔

گذشتہ دو مہینوں سے سوات کے مختلف علاقوں سے شدت پسندوں کے دوبارہ سر اٹھانے کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں، تاہم حکومت حالات کو کنٹرول میں قرار دیتی ہے۔

اس سلسلے میں وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنااللہ نے ایک موقعے پر میڈیا کو بتایا تھا کہ سوات میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ 

گذشتہ ہفتے سوات کے علاقے کبل میں امن کمیٹی کے سابق سربراہ ادریس خان اور آٹھ دوسرے افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

اسی طرح حالیہ دنوں میں سوات کے علاقے مٹہ میں بھی ٹی ٹی پی کی دوبارہ واپسی کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں، اور اسی حوالے سے ایک ویڈیو بھی گردش کر رہی ہے، جس میں خود کو ٹی ٹی پی کے جنگجو کہلوانے والوں نے پولیس ڈی ایس پی اور سکیورٹی فورسز کے دو افسران کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔

پولیس کے مطابق مذکورہ پولیس اہلکاروں کو مقامی جرگے کی مدد سے بازیاب کرایا گیا تھا۔

 حکومت پاکستان کے ٹی ٹی پی کے ساتھ امن مذاکرات بھی چل رہے ہیں، اور ان تمام واقعات کے بعد حکومتی جرگہ کے رکن اور خیبر پختونخوا حکومت کے ترجمان بیرسٹر محمد علی سیف نے انڈپینڈنٹ اردو کو گذشتہ روز بتایا تھا کہ مذاکرات ابھی تک ختم نہیں ہوئے، اور نہ ہی ٹی ٹی پی نے فائر بندی ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان