سوات میں ’طالبان کی موجودگی‘: کیا سیاح محفوظ ہیں؟

گزشتہ کچھ دنوں میں سوشل میڈیا پر سوات کے حوالے سے کچھ ویڈیوز وائرل ہوئیں جن میں سوات کے گردو نواح کے علاقوں میں مبینہ طور پر طالبان کی موجودگی نے سیاحوں کو شش و پنج میں مبتلا کر دیا ہے۔

دریائے سوات کا منظر جس کے کنارے سیاح سیر کے لیے آتے ہیں (فوٹو انڈپینڈنٹ اردو)

رواں ماہ سوشل میڈیا پر سوات کے حوالے سے کچھ ویڈیوز وائرل ہوئیں جن میں سوات کے گردو نواح کے علاقوں میں مبینہ طور پر طالبان کی موجودگی نے سیاحوں کو شش و پنج میں ڈال دیا ہے۔

وادی سوات اور اس سے ملحقہ علاقوں کا شمار پاکستان کے بہترین سیاحتی مقامات میں ہوتا ہے۔ ہر سال ملک بھر سے لوگ وادی سوات کا رخ کرتے ہیں جس سے وہاں کی مقامی معیشت کا پہیہ چلتا ہے۔

خیبر پختونخوا ٹورزم کاپوریشن کے اعداد و شمار کے مطابق جولائی 2022 میں دو لاکھ گیارہ ہزار سیاحوں نے مالم جبہ کا رخ کیا جبکہ رواں ماہ اب تک ڈھائی لاکھ سیاحوں نے وہاں کا رخ کیا۔

سوات میں ’طالبان کی واپسی‘ کی خبروں کے بعد بظاہر سیاحوں کی آمد کا سلسلہ تو نہیں رکا البتہ اس شعبے سے منسلک مقامی کاروباری طبقہ خدشات سے دوچار ہے۔

اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے سوات کے علاقے مینگورہ میں سیاحتی مقام پر کچھ سیاحوں سے بات کی جو لاہور، لیہ اور دیگر شہروں سے آئے ہوئے تھے۔

ایک خاتون سیاح ڈاکٹر آسیہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ آئی ہیں لیکن ان کو کسی بھی قسم کی کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔

ڈاکٹر آسیہ نے کہا کہ ’یہاں آنے سے پہلے ہمیں بہت زیادہ خبریں مل رہی تھیں کہ یہاں پر دوبارہ طالبان آگئے ہیں۔ یہاں کا ماحول بالکل اچھا نہیں رہا۔ لاہور سے یہاں کا سفر نو سے دس گھنٹے ہے اور اگر ہم یہاں آئے تو ہمیں کوئی پریشانی ہو گی تو کیا فائدہ۔

لیکن میں نے یہاں کا ماحول بالکل الٹ پایا جیسے کے یہاں کے لوگ بہت مہمان نواز ہیں۔ ویسی کوئی بات نہیں ہے جیسے سنا تھا۔ یہاں میں خود کو بہت ہیں محفوظ محسوس کر رہی ہوں۔‘

ایک اور سیاح محمد ضیا شاہد نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے سوات آنے کا تجربہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے طالبان کے حوالے سے ’افواہیں سنی تھیں کے وہ دوبارہ آ گئے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں یہاں آتے ہوئے راستے میں چھ سے سات پولیس کی چوکیاں ملی ہیں جہاں پر ہر طرح کی چیکنگ کی جا رہی تھی۔ جس سے ہمیں مزید تسلی ہو گئی کہ یہاں سکیورٹی وغیرہ کی صورت حال کافی بہتر ہے۔ ایک رات پہلے  بارہ بجے بھی ہم چائے پینے کے لیے باہر نکلے تھے۔ اس وقت بھی پولیس کی گاڑیاں گشت کر رہی تھیں۔ لہٰذا یہاں پر امن ہے اور مزید سیاح بھی یہاں آرہے ہیں۔‘

لاہور سے آئی ایک اور خاتون سیاح کوثر طارق نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہم یہاں پر ایسے ہیں گھوم رہے ہیں جیسے لاہور میں گھومتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سوات کا علاقہ ماضی میں تقریباً چار سال تک طالبان کے قبضے میں رہا اور یہاں پر دہشت گردی سے سیاحت کے شعبے کو خاصا نقصان پہنچا تھا۔ نہ صرف سیاح بلکہ ان کی آمد سے منسوب سوات کے ہوٹل مالکان، ٹرانسپورٹ اور دیگر شعبے بھی متاثر ہوئے تھے۔

سوات ہوٹل ایسوسی ایشن

حال ہی میں سوات کے علاقے میں طالبان کی موجودگی کی خبروں نے جہاں ایک طرف سوشل میڈیا کے ذریعے سیاحوں میں خوف و ہراس پھیلایا ہے، وہیں دوسری طرف ہوٹل مالکان کا بھی نقصان ہوا ہے۔

اس حوالے سے سوات ہوٹل ایسوسی ایشن کے صدر زاہد خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی اطلاعات کے مطابق ’طالبان سوات میں موجود ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس افواہ کی وجہ سے سیاحت پر منفی اثرات پڑ رہے ہیں۔ سیاح اپنے پروگرام منسوخ کر رہے ہیں۔ ان حالات کے پیش نظر اب تک سیاحوں کے ساتھ کسی قسم کا ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔

میں ان تمام سیاحوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ سوات مہمان نوازوں کا علاقہ ہے۔ سیاح اس قسم کی کسی بھی افواہ پر کان نہ دھریں اور یہاں کا بے فکری سے رخ کریں۔ کیونکہ پہلے جیسی صورت حال یہاں  بالکل نہیں ہے۔‘

سوات کے ڈسٹرکٹ پولیس آفس کے مطابق: ’اس وقت سوات کے شہری علاقوں میں طالبان کی کوئی موجود گی نہیں ہے جبکہ اس حوالے سے شہریوں اور باالخصوص سیاحوں کی سکیورٹی، پولیس کی اولین ترجیح ہے۔ سکیورٹی ٹیمیں سوات اور گردونواح کے علاقوں میں مسلسل  گشت کرنے میں مصروف ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت