حالات بگڑنے کی صورت میں ’ریاست ذمہ دار‘ہو گی: سوات قومی جرگہ

مینگورہ پریس کلب میں بدھ کو ہونے والے قومی جرگے میں علاقائی مشران اور سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سمیت مختلف مکتبہ فکر کے افراد نے شرکت کی۔

خیبر پختونخوا کے ضلع سوات کے قومی جرگے نے پرتشدد واقعات کی ’نئی لہر‘ کے پیش نظر کہا ہے کہ آئندہ حالات بگڑنے کی صورت میں ’ریاست‘ اس کی ’ذمہ دار‘ ہو گی۔

مینگورہ پریس کلب میں بدھ کو ہونے والے سوات قومی جرگے نے خوازہ خیلہ تحصیل میں حال ہی میں احتجاجی مظاہرین پر ہونے والے مقدمے کو ’تعصب‘ پر مبنی قرار دیتے ہوئے ایف آئی آر واپس لینے کا مطالبہ بھی کیا۔

جرگے میں علاقائی مشران اور سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سمیت مختلف مکتبہ فکر کے افراد نے شرکت کی۔

جرگے کے مطالبات

قومی جرگے میں کہا گیا کہ سوات کی زمین پر ’دہشت گردی‘ یا ’دہشت گردوں کی موجودگی‘ کو بالکل قبول نہیں کیا جائے گا۔

جرگے کے شرکا نے کہا کہ ’ملاکنڈ ڈویژن اور خاص طور پر سوات میں دہشت گردی کی نئی لہر کی روک تھام کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ریاست عوام کی جان و مال اور عزت کی حفاظت کرنے میں ناکام ہے جس پر جرگے کو شدید تشویش ہے۔‘

اس موقعے پر خوازہ خیلہ میں مظاہرین پر ہونے والے مقدمے کو ’تعصب‘ پر مبنی قرار دیتے ہوئے ایف آئی آر واپس لینے کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔

12 اگست 2022 کو ہونے والا احتجاجی مظاہرہ، کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی مبینہ واپسی کے خلاف کیا گیا تھا۔ 

قومی جرگے نے حالات کشیدہ ہونے کی صورت میں گھر بار اور سوات نہ چھوڑنے کا فیصلہ بھی کیا ہے۔

جرگہ سے خطاب میں مقررین کا کہنا تھا کہ ’شہریوں کی حفاظت آئینِ پاکستان کے مطابق ’حکومت اور متعلقہ اداروں کی ذمہ داری ہے۔‘

جرگے کے صدر کا کیا کہنا ہے؟

سوات قومی جرگہ کے صدر مختار خان یوسفزئی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’سوات میں دہشت گردی کا مسئلہ اچانک نہیں ہوا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’گذشتہ کئی ماہ سے مذاکرات کے نام پر مذموم اور مشکوک کوشش ہو رہی تھی۔ جو مذاکرات کابل میں ہوئے یہ پارلیمان کے ذریعے ہونے چاہییں تھے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’ریاست واضح کرے کے مذاکرات میں کیا طے کیا گیا ہے اور آئندہ صرف ان مذاکرات کی حمایت کریں گے جوعوام اور پارلیمان کے ذریعے ہوں گے۔‘

مختار خان یوسفزئی کا کہنا تھا کہ اس بار عوام میں خوف ماضی جیسا نہیں۔ ’حکومت نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو سارا سوات ایک بہت بڑے دھرنے میں تبدیل ہو گا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سوات میں حال ہی میں ہونے والے مظاہرے کے بعد مظاہرین پر دائر مقدمات سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ مظاہرین پر دائر مقدمات ’حکومت کی امن کے خلاف نیت کو ظاہر کر رہے ہیں، دھرنے کے شرکا کی بجائے شدت پسندوں کے خلاف مقدمات دائر ہونے چاہییں۔‘

جرگے میں شریک غیرت خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’سوات کے لوگ جو پہلے بھی متاثر ہوئے ہیں، انہیں دوبارہ جنگ کا ایندھن نہ بنایا جائے۔ ریاست کو اس دہشت گردی کی روک تھام کے لیے اقدامات کرنے چاہییں۔‘

غیرت خان کا کہنا تھا کہ ’ہم دہشت گردی کے خلاف نکلے تھے اور ہم پر ہی بغاوت اور ریاست کے خلاف سازش کے مقدمات بنائے گئے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو نے اس حوالے سے ڈسٹرکٹ پولیس آفس سے موقف لینے کے لیے رابطہ کیا لیکن ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

پاکستان فوج کا موقف

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے سوات میں طالبان کے پھیلاؤ اور موجودگی سے متعلق بیان جاری کرتے ہوئے کہا گیا کہ ’سوات اور دیر کے درمیان آبادی سے دور کچھ پہاڑوں پر کچھ مسلح افراد کی موجودگی کو دیکھا گیا ہے۔ بظاہر یہ افراد افغانستان سے اپنے آبائی علاقوں میں واپس آئے ہیں۔‘

آئی ایس پی آر نے مزید کہا کہ ’پہاڑوں پر ان افراد کی محدود نقل و حرکت پر گہری نظر رکھی جا رہی ہے۔ ملحقہ علاقوں کی آبادی کی سکیورٹی کے لیے تمام اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ عسکریت پسندوں کی کسی بھی جگہ موجودگی برداشت نہیں کی جائے گی۔ ضرورت کے تحت عسکریت پسندوں سے پوری قوت سے نمٹا جائے گا۔‘

مینگورہ شہر میں مقامی شہریوں نے گذشتہ دنوں شدت پسندوں کی موجودگی کے خلاف احتجاج بھی کیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان