مٹہ میں طالبان کی موجودگی کا خدشہ: پرانی یادیں لوٹ آئیں

حالیہ دنوں میں سوات کی تحصیل مٹہ میں تحریک طالبان پاکستان کی مبینہ موجودگی کی خبروں نے سوات کے باسیوں کے لیے 2007 کی یادیں تازہ کر دی ہیں

سوات کے علاقے مٹہ کا داخلی راستہ جو 2007 میں تحریک طالبان پاکستان کی چیک پوسٹ ہوا کرتا تھا (تصویر: انڈپینڈنٹ اردو)

پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع سوات کی تحصیل مٹہ میں تحریک طالبان پاکستان کی مبینہ موجودگی کی خبروں نے سوات کے باسیوں کے لیے 2007 کی یادیں تازہ کر دی ہیں جب طالبان کا اثر و رسوخ شہر بھر میں پھیلا ہوا تھا۔

سوات میں ایسے مقامی خاندان بھی موجود ہیں جن کے گھر کے تمام یا بیشتر افراد یا تو طالبان کے خلاف آپریشن کے دوران یا طالبان کی کارروائیوں میں مارے گئے تھے اور اب طالبان کی موجودگی کی افواہوں نے انہیں ایک بار پھر اپنے عزیز و اقارب کی سلامتی کے لیے فکر مند کر دیا ہے۔

ممتاز علی کا تعلق شکردرہ گاؤں سے ہے جو تحصیل مٹہ میں واقع ہے۔ ممتاز کے والد مظفر علی خان پر 28 مئی 2011 کی رات تقریباً تین بجے بیماری کی حالت میں حملہ کیا گیا جس کے بعد دو افراد سمیت ان کی موت واقع ہوئی۔

ممتاز نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ٹی ٹی پی نے ان کے 15 عزیز قتل کیے جن میں سے آٹھ افراد کا تعلق ان کے خاندان سے تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’(مرنے والے) یہ ساتھی ہمارے جسم کا حصہ تھے۔‘

قتل کب ہونا شروع ہوئے؟

ممتاز نے واقعے کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ ’ٹی ٹی پی نے میرے والد کو تنظیم کا حصہ بننے کی پیشکش کی تھی‘ جس کا انہوں نے انکار کر دیا تھا۔

ممتاز علی بتاتے ہیں کہ قتل و غارت کا سلسلہ 2007 میں شروع ہوا جب میڈیا کو انٹرویو دینے کے شک کی بنیاد پر ان کے چچا زاد بھائی عبداللہ خان کو گھر کے دروازے پر قتل کر دیا گیا۔

ممتاز کہتے ہیں کہ ’2008 میں جب طالبان نے ہتھیار اٹھائے تو مجھے سمجھ آ گئی کہ مسئلہ کچھ اور ہے۔‘

’جب مقامی افراد کو ذبح کیا جانے لگا تو لوگوں میں خوف پھیل گیا۔ انہوں نے دوسرے علاقوں میں منتقلی شروع کر دی۔ ہم ان کے ڈر سے باہر نہیں نکلتے تھے۔‘

بگڑتے حالات کے پیش نظر ممتاز نے بھی اپنے بچوں کو مینگورہ منتقل کرنے کا سوچا۔ انہوں نے بتایا کہ ’جب ہم اپنے گھر سے نکلے تو کبل تحصیل کے قریب گھر سے فون آیا کہ طالبان کو پتہ چل گیا ہے کہ آپ علاقے سے چلے گئے ہیں اور گاؤں کے کمانڈر نے خواتین اور بچوں سمیت آپ سب کو مارنے کا حکم دیا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ممتاز کہتے ہیں کہ ٹی ٹی پی نے مسلسل ایک گھنٹہ خالی گھر پر فائرنگ کرنے کے بعد ان کے گھر کو بم دھماکے سے اڑانے کے بعد مسمار کر دیا۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ہمیں اس لیے ٹارگٹ کیا جاتا تھا کیونکہ ہم نے ہمیشہ حکومت کا ساتھ دیا۔ لیکن اب ایسا ہے کہ مشکل وقت میں ہم حکومت کا ساتھ دیتے ہیں لیکن حکومت ہمارا ساتھ نہیں دیتی۔‘

مٹہ میں طالبان کی موجودگی

ممتاز علی کہتے ہیں کہ ان کے گاؤں میں اب بھی اس وقت کے طالب موجود ہیں جو پولیس اور فوج کے زیر حراست رہنے اور سزا کاٹنے کے بعد واپس آ چکے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ’تقریبا ایک ماہ پہلے ہمیں اطلاع ملی کہ طالبان پہاڑوں میں موجود ہیں اور رات میں نکلتے ہیں۔ ہم نے انہیں نہیں دیکھا لیکن لوگوں نے ان کی موجودگی کا بتایا ہے۔ تب سے ہم نے اپنی نقل و حرکت بہت محدود کر دی ہے۔‘

ممتاز کہتے ہیں کہ ‘اب بھی ہمارے گھر پر سخت پہرہ دیا جاتا ہے۔ یہ خبریں سامنے آنے کے بعد لوگوں میں خوف و ہراس ہے۔ جو لوگ پہلے رات کے وقت کھیتوں میں پانی دینے جاتے تھے اب دوپہر کے بعد گھر سے باہر نہیں نکلتے۔‘

نو اگست 2022 کو سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ایک ویڈیو منظر عام پر آئی جس میں ایک فوجی اور پولیس افسر کو یرغمال بنے دیکھا گیا۔ ان اطلاعات پر پاکستان فوج علاقے میں طالبان کی مبینہ موجودگی کی خبروں کو گمراہ کن قرار دے چکی ہے۔

طالبان کی ضلع سوات میں مبینہ موجودگی سے متعلق شہریوں کا شدید ردعمل سامنے آیا ہے جس کے حوالے سے بڑے پیمانے پر احتجاج بھی کیا گیا۔ احتجاج کے نتیجے میں کئی افراد پر ایف آئی آر بھی درج کی گئی ہے۔

اسی حوالے سے 17 اگست بروز mdh مینگورہ میں ’سوات قومی جرگہ‘ کا انعقاد ہو گا جس کا ایجنڈا سوات میں طالبان کی مبینہ موجودگی اور علاقے میں اس کا مستقبل ہے۔

ممتاز علی نے کہا ہے کہ ’اتنے سال گزر جانے کے بعد آج ہم امن کی خاطر یہ سارے قتل معاف کرنے کو تیار ہیں۔ اس سب کے باوجود ملک کی ترقی کے لیے تیار ہیں۔ ہم نے پہلے بھی قربانیاں دیں، اب بھی دیں گے۔ اگر حکومت ٹی ٹی پی کو معاف کرتی ہے تو ہم بھی معاف کر دیں گے۔‘

پاکستان فوج کا موقف

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے سوات میں طالبان کے پھیلاؤ اور موجودگی سے متعلق بیان جاری کرتے ہوئے کہا گیا کہ ’سوات اور دیر کے درمیان آبادی سے دور کچھ پہاڑوں پر کچھ مسلح افراد کی موجودگی کو دیکھا گیا ہے۔ بظاہر یہ افراد افغانستان سے اپنے آبائی علاقوں میں واپس آئے ہیں۔‘

آئی ایس پی آر نے مزید کہا کہ ’پہاڑوں پر ان افراد کی محدود نقل و حرکت پر گہری نظر رکھی جا رہی ہے۔ ملحقہ علاقوں کی آبادی کی سکیورٹی کے لیے تمام اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ عسکریت پسندوں کی کسی بھی جگہ موجودگی برداشت نہیں کی جائے گی۔ ضرورت کے تحت عسکریت پسندوں سے پوری قوت سے نمٹا جائے گا۔‘

مینگورہ شہر میں مقامی شہریوں نے گذشتہ دنوں شدت پسندوں کی موجودگی کے خلاف احتجاج بھی کیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان