’ہم مزید جنازے نہیں اٹھا سکتے‘: سوات میں بدامنی کے خلاف مظاہرہ

سوات میں عسکریت پسندوں کی مبینہ واپسی کی خبروں پر ایک بڑا مظاہرہ ہوا ہے۔

’پہلے تو ہمیں بتایا جائے کہ ویڈیو میں نظر آنے والے پولیس اور دیگر سکیورٹی اہلکار سول کپڑوں میں کیوں تھے جن کو مٹہ میں یرغمال بنا گیا۔ ہم اس علاقے میں امن کے علاوہ کچھ قبول کرنے کو تیار نہیں۔ آج ہمارا مال، عزت اور شہرت خطرے میں ہے اور ہم یہ ہونے نہیں دیں گے۔‘

یہ کہنا تھا سوات کے رہائشی علی نامدار کا جو جمعے کو کبل میں ایک مظاہرے سے خطاب کر رہے تھے۔ یہ مظاہرہ سوات کے علاقے مٹہ میں طالبان کی مبینہ واپسی کی میڈیا رپورٹس کے خلاف کیا گیا۔

مظاہرے میں سوات بھر سے نوجوانوں، بڑوں اور علاقے کی بااثر شخصیات نے شرکت کی۔

مظاہرے کی منتظم  تنظیم ’سوات اولسی پاثون‘(سوات عوامی تحریک) نے شرکا کو ہدایت دی تھی کہ مظاہرے میں صرف کالے اور پاکستان کے جھنڈے لائے جائیں کیونکہ یہ مظاہرہ غیر سیاسی اور علاقے میں امن کی خاطر ہو رہا ہے۔‘

مظاہرے سے خطاب میں عالم نامدار نے مزید کہا کہ وہ یہاں صرف امن کے لیے اکھٹے ہوئے ہیں۔ ’اس سے پہلے ہم اپنے گھروں کو چھوڑ کر نقل مکانی پر مجبور ہوئے تھے۔ ہمارے بچے یتیم اور خواتین بیوائیں ہو چکی ہیں۔ ہم پارٹی اور سیاست سے بالاتر ہوکر صرف امن چاہتے ہیں۔‘

انھوں نے مٹہ میں عسکریت پسندوں کے ہاتھوں چار سکیورٹی اہلکاروں کے یرغمال بنائے جانے کے واقعے کی تحقیقات کے لیے کمیشن کا مطالبہ کرتے ہوئے سوال کیا کہ ڈی ایس پی پہاڑی پر آپریشن کے لیے سول کپڑوں میں کیوں گئے تھے؟

مظاہرین سے خطاب میاں پاکستان پیپلز پارٹی کے سوات سے رہنما ڈاکٹر مجد علی خان نے کہا کہ آئین کے تحت ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کی جان و مال کا تحفظ یقینی بنائے اور یہ ہمارا آئینی اور اخلاقی حق ہے۔ 

’ہمیں سوات میں امن تحفے میں نہیں ملا بلکہ ہم نے اس کے لیے بزرگوں، خواتین اور بچوں کی قربانیاں دیں اور جو بھی اس امن پر انگلی اٹھائے گا ہم انہیں واضح الفاظ میں کہتے ہیں کہ ہم مزید جنازے نہیں اٹھا سکتے اور نہ ہم اپنی ماؤں کو روتا دیکھ سکتے ہیں۔‘

مٹہ میں کیا ہوا؟

رواں ہفتے مٹہ میں میڈیا رپورٹس کے مطابق طالبان کے کچھ لوگوں نے ایک ڈی ایس پی سمیت چار سکیورٹی اہلکاروں کو یرغمال بنایا تھا، جنھیں بعد ازاں ایک جرگے کی مدد سے بازیاب کرایا گیا۔

سوات پولیس کے ترجمان معیز فیاض نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا تھا کہ مٹہ کے پہاڑی علاقے میں کچھ شرپسندوں کے خلاف پولیس نے آپریشن کیا جس میں ڈی ایس پی زخمی ہوگئے تھے۔

اس واقعے کی ایک مبینہ ویڈیو کلپ بھی سامنے آئی ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس ڈی ایس پی پیر سید زمین پر زخمی حالت میں پڑے ہیں جبکہ دو سول کپڑوں میں ملبوس افراد کے ہاتھ پیچھے بندھے ہیں۔

 آئی جی خیبر پختونخوا معظم جاں انصاری نے اس واقعے کے بعد کہا کہ سوات میں طالبان کی واپسی میں حقیقت نہیں اور طالبان کے قبضے کا تاثر ٹھیک نہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا: ’ہمارے پاس اطلاعات تھیں کہ پہاڑوں کے اوپر کچھ لوگوں کی حرکت دیکھی گئی جس کے بعد سکیورٹی اہلکاروں کا ان سے فائرنگ کا معمولی تبادلہ ہوا اور ہمارا یک افسر زخمی ہوا۔ واقعے میں دہشت گرد بھی زخمی ہوئے تھے۔‘

طالبان کی واپسی کی خبروں پر پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ ’ہمارے پارٹی رہنماؤں کو طالبان سے دھمکیاں مل رہی ہیں اور یہ ہماری پارٹی کے خلاف ایک سازش کے تحت ہو رہا ہے تاکہ اسے کمزور کیا جا سکے۔‘

وزیرستان امن کے لیے سرکاری جرگے کی تشکیل 

دوسری جانب شمالی وزیرستان میں ٹارگٹ کلنگ اور امن عامہ کے حوالے سے گذشتہ 25 دنوں سے اتمانزئی قبیلے کی سربراہی میں ایک دھرنا جاری ہے۔

دھرنے کے شرکا کا مطالبہ ہے کہ وزیرستان میں دیرپا امن قائم کیا جائے۔ یاد رہے کہ وزیرستان میں گذشتہ کئی مہینوں سے ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے اور حالیہ دنوں میں وزیرستان کے چار نوجوان سماجی کارکنوں کو قتل کردیا گیا تھا۔

اس سلسلے میں وزیر اعظم شہباز شریف نے اراکین اسمبلی پر مشتمل ایک جرگہ تشکیل دیا ہے تاکہ دھرنا متنظمین کے ساتھ گفتگو کے ذریعے اس مسئلے کا حل نکالا جا سکے۔

جرگے کی پہلی بیٹھک آج (12اگست) کو بنوں میں جمعیت علمائے اسلام کے رہنما اکرم خان درانی کی میزبانی میں ہو رہی ہے جس کے بعد جرگہ وزیرستان میں دھرنے کے منتظمین سے ملاقات کرے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان