تحریک طالبان کی شرائط کے پاکستان پر اثرات

ایک طرف یہ پیش رفت خطے میں متشدد باغی گروہوں کو مزید حوصلہ دے گی جبکہ دوسری طرف ان کے اثرات فاٹا سے پاکستان کے دیگر حصوں تک پھیلیں گے۔

مفتی محمد تقی عثمانی کی قیادت میں پاکستانی علما کے وفد کی کابل روانگی کے وقت اسلام آباد ائرپورٹ پر ایک تصویر (تصویر:  افغان طالبان)

جولائی میں پاکستان کی پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی نے پاکستان حکومت اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان مذاکرات کی باضابطہ منظوری دی۔

فوج کی قیادت نے پارلیمنٹ کو بریفنگ دی کہ ٹی ٹی پی کو دولت اسلامیہ خراسان کے ساتھ اتحاد سے دور رکھنے کے لیے وہ  ٹی ٹی پی سے بات کرنے پر مجبور ہوئے ہیں جو پاکستان کی داخلی سلامتی کے لیے تباہ کن ثابت ہوتا۔

پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی نے مذاکراتی عمل کو آگے بڑھانے کے لیے 27 رکنی پارلیمانی نگران کمیٹی بھی تشکیل دی۔ پاکستان اور ٹی ٹی پی مذاکرات طالبان کی ثالثی کے تحت افغانستان میں ہو رہے ہیں۔

فی الحال غیر معینہ مدت کے لیے جنگ بندی ہے کیونکہ فریقین اپنی بات چیت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کمیٹی کو بتایا گیا کہ ٹی ٹی پی کے تقریباً 30 ہزار کارکنان اور ان کے خاندانوں افغانستان میں مقیم ہیں جنہیں حتمی ڈیل ہونے کی صورت میں واپس بھیجا جا سکتا ہے۔

بلاشبہ تمام تنازعات امن مذاکرات کے ذریعے ختم ہو سکتے ہیں۔ تاہم امن کے لیے اگر ریاستیں مجبوری میں متشدد بنیاد پرست گروہوں کو یکطرفہ رعایتیں دیتی ہیں تو درحقیقت وہ انھیں پنپنے کے مواقع فراہم کرتی ہیں۔ ایک طرف اس طرح کے سمجھوتے ایسے گروہوں کو نظام میں حقیقی سٹیک ہولڈرز کے طور پر قانونی حیثیت دیتے ہیں جبکہ دوسری طرف اس سے انھیں  اپنی جڑیں اور نظریاتی بیانیے کو پھیلا کر نظام کو کمزور کرنے کے مواقع حاصل ہوتے ہیں۔

اگر پرتشدد باغی گروپوں کے ساتھ یک طرفہ امن معاہدے کے فائدے اور نقصانات کو غور سے دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کوئی بھی ڈیل نہ کرنا بُری ڈیل کرنے سے بہتر ہے۔

امریکہ کےطالبان اور پاکستان کے ٹی ٹی پی  سے مذاکرات کے درمیان جو مشابہت اور موازنہ تلاش کیا جا رہا ہے وہ درست نہیں ہے۔ زیادہ مناسب مشابہت کابل حکومت کے طالبان کے ساتھ یا انٹرا افغان مذاکرات ہیں، جو ناکام ہو گئے۔

اس وقت پاکستان اور ٹی ٹی پی کے مابین مذاکرات تعطل کا شکار ہیں کیونکہ فریقین اپنے اپنے سخت موقف پر قائم ہیں۔ پاکستان نے دیوبندی مکتبہِ فکر کے اہم عالمِ دین مفتی تقی عثمانی کو بھی بھیجا جن کا طالبان میں بہت احترام کیا جاتا ہے تاکہ ٹی ٹی پی کو لچک دکھانے پر راضی کیا جا سکے۔

کسی بھی قیمت پر پاکستان چاہتا ہے کہ ٹی ٹی پی اپنے تنظیمی ڈھانچے کو ختم کرے، ہتھیار ڈالے، ملک کے آئین کی پاسداری کرے اور عام شہریوں کی طرح زندگی بسر کرے۔

اس کے برعکس، ٹی ٹی پی سابق فاٹا  (وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات) کے صوبہ خیبر پختونخوا میں انضمام، شرعی نظام کے نفاذ اور علاقے میں پاکستانی فوجیوں کی تعداد میں کمی کے ساتھ ساتھ مالی معاوضے اور اپنے کارندوں کے لیے عام معافی کا مطالبہ کر رہی ہے۔ مزید برآں ٹی ٹی پی اپنے تنظیمی ڈھانچے کو ختم کرنے یا خود کو غیر مسلح کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

پاکستان کو ٹی ٹی پی کے ساتھ امن معاہدے کے نتائج کا بغور جائزہ لینا چاہیے۔ یہ گروپ امریکی انخلا اور افغانستان میں طالبان کی حکومت کی بحالی کے بعد سے خود کو توانا محسوس کر رہا ہے۔ اس کے بعد سے پاک افغان سرحدی علاقے میں پاکستانی سیکورٹی فورسز کے خلاف ٹی ٹی پی کے حملوں میں ڈرامائی اضافہ ہوا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

2021 میں ٹی ٹی پی نے پاکستانی سکیورٹی فورسز کے خلاف 282 سے زیادہ حملوں کا دعویٰ کیا۔ اسی طرح 2022 کی پہلی سہ ماہی میں ٹی ٹی پی نے 79 سے زائد پاکستانی سکیورٹی اہلکاروں کو ہلاک کیا ہے۔

ٹی ٹی پی کے مسلسل حملوں اور طالبان کے ان کے خلاف کارروائی سے انکار نے پاکستان کو ٹی ٹی پی سے بات کرنے پر مجبور کیا۔ امن معاہدے تک پہنچنے کی پاکستانی کی پہلی کوشش اس وقت ناکام ہو گئی جب ٹی ٹی پی نے گذشتہ نومبر میں یکطرفہ طور پر ایک ماہ کی جنگ بندی ختم کر دی۔

اپنے حالیہ بیان میں ٹی ٹی پی کے سربراہ نور ولی محسود پاکستان کے ساتھ متوقع معاہدے کا موازنہ امریکہ اور طالبان کے درمیان طے پانے والے دوحہ معاہدے 2020 سے کر رہے ہیں۔

ولی نے کہا کہ پاکستان کو ٹی ٹی پی کے مقابلے میں ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہے جس کا امریکہ کو افغانستان میں طالبان کے خلاف سامنا تھا۔ طالبان کی طرح وہ اس معاہدے کو ٹی ٹی پی کی فتح کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ ڈیل کی صورت میں ٹی ٹی پی اس فاتحانہ بیانیے کو پاکستانی معاشرے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے اور تنظیم میں نئی بھرتیوں کے لیے استعمال کرے گی۔

اگر ٹی ٹی پی کو فاٹا میں طالبان طرز کے شرعی نظام کی اجازت دی جاتی ہے، اس خطے کے خیبرپختونخوا میں انضمام کے ساتھ یا اس کے بغیر، تو بنیاد پرست گروپ اسے طالبان کے افغانستان پر قبضے کے اثر کے طور پر ظاہر کریں گے۔

ایک طرف یہ پیش رفت خطے میں متشدد باغی گروہوں کو مزید حوصلہ دے گی جبکہ دوسری طرف ان کے اثرات فاٹا سے پاکستان کے دیگر حصوں تک پھیلیں گے۔

اگر ماضی کے تجربات کو مدِنظر رکھا جائے تو ماضی میں ٹی ٹی پی کے ساتھ چھ معاہدے ناکام ہو چکے ہیں۔ ٹی ٹی پی نے ان معاہدوں کو دوبارہ بحال ہونے، دوبارہ منظم ہونے اور ایک نئے جوش کے ساتھ اپنی پرتشدد مہم کو دوبارہ شروع کرنے کے لیے استعمال کیا۔

فاٹا میں ٹی ٹی پی کو تخفیفِ اسلحہ اور تخفیفِ نقل و حرکت کے بغیر واپس جانے کی اجازت دینا سکیورٹی کے خطرات  سے بھرپور ہے۔ پاکستان کے آئینی ڈھانچے یا جمہوری اقدار پر کوئی بھی سمجھوتہ ایک غلط مثال قائم کرے گا جس سے دوسرے باغی گروہوں کو اس کی پیروی کرنے کی ترغیب ملے گی۔

اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ یہ رائے عامہ کو تقسیم کر دے گی جو برسوں کی الجھنوں کے بعد  پرتشدد انتہا پسندی کے خلاف جنگ کے نکتے پر یکسو ہوئی۔

افغانستان میں طالبان کی اقتدار میں واپسی اور ٹی ٹی پی پر اس کے نئے اثرات نے پاکستان کو ایک مشکل دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے۔ پاکستان نہ تو افغانستان میں ٹی ٹی پی کے خلاف متحرک حکمتِ عملی اپنانے کی پوزیشن میں ہے کیونکہ اس سے طالبان حکومت کے ساتھ اس کے تعلقات پر منفی اثر پڑے گا اور نہ ہی پاکستان باغی گروپ کی شرائط  پر ٹی ٹی پی کو فاٹا میں واپس جانے کی اجازت دینے کے لیے تیار ہے۔

قابلِ عمل متبادل کے فقدان کی وجہ سے پاکستان امن بات چیت پر عمل پیرا ہے۔  ٹی ٹی پی کے ساتھ امن مذاکرات کا فیصلہ درست ہے تاہم درست حکمتِ عملی کے تحت مذاکرات کے آگے بڑھنے سے ہی مسائل کا حقیقی حل نکالا جا سکے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ