دیامر: جلائے جانے والے گرلز سکول کی ایک ہفتے میں بحالی کے احکامات

گلگت بلتستان کے چیف سیکرٹری محی الدین احمد وانی نے تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے اداروں کو تمام وسائل کا استعمال کرکے ایک ہفتے کے اندر متعلقہ عمارت کو بحال کرنے کی ہدایات جاری کر دی ہیں۔

اپر سیمی گال میں لڑکیوں کا مڈل سکول جہاں تقریباً 65 طالبات زیر تعلیم ہیں (بشکریہ: پامیر ٹائمز)

گلگت بلتستان کے ضلع دیامر کی تحصیل داریل میں پیر کی رات نامعلوم افراد کی جانب سے لڑکیوں کے ایک سکول کو جلائے جانے کے واقعے کی تحقیقات جاری ہیں دوسری جانب گلگت بلتستان کے چیف سیکریٹری محی الدین احمد وانی نے تعلیمی ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے اداروں کو تمام وسائل کا استعمال کرکے ایک ہفتے کے اندر متعلقہ عمارت کو بحال کرنے کی ہدایات جاری کردی ہیں۔

محی الدین وانی نے عوام کے نام جاری کیے گئے ایک پیغام میں کہا کہ ’تعلیم دشمن عناصر کے سامنے ڈٹے رہیں گے اور انہیں اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔‘

یہ واقعہ پیر کو رات گئے اپر سیمی گال میں لڑکیوں کے مڈل سکول میں پیش آیا، جہاں تقریباً 65 طالبات زیر تعلیم ہیں۔

علاقہ مکینوں کے مطابق دیامر میں پہلے ہی گرلز سکول نہ ہونے کے برابر ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اس نوعیت کا ایک واقعہ 2018 میں بھی پیش آیا تھا، جس کے نتیجے میں تقریباً ایک درجن سکول جلائے گئے اور جن میں سے زیادہ تر طالبات کے سکول تھے۔

دیامر کے مقامی صحافی شہاب الدین غوری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ تاحال نہ تو 2018 کے واقعے میں ملوث شرپسندوں کو گرفتار کیا جاسکا ہے اور نہ ہی ان کی کوئی نشاندہی کی گئی ہے۔

تاہم انہوں نے کہا کہ ’وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ آیا اس واقعے میں ملوث افراد کا تعلق باہر سے ہے یا علاقے سے ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بقول شہاب الدین ’ضلع دیامر میں مقامی طور پر خواتین کی تعلیم کے حوالے سے اختلاف موجود رہا ہے۔ متعلقہ سکول میں ایک ٹیچر تعینات تھیں اور اکثر اوقات چوکیدار اور استاد کی پوسٹ پر اپنے بندوں کو رکھوانے کی تگ و دو یا پھر سکول کے لیے زمین کے مالک کے ساتھ تنازع بھی عناد اور دشمنی کی وجہ بن جاتے ہیں، لہذا ایسے واقعات کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہوسکتے ہیں۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ مقامی لوگوں میں اس واقعے کے بعد کسی قسم کا خوف وہراس نہیں پایا جا رہا اور ان کا بچوں کو سکول بھجوانے کا فیصلہ مستحکم ہے۔

دیامر کے ایک سماجی کارکن ذوالفقار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پچھلے واقعات میں ’بوائز‘ سکول بھی جلائے گئے تھے، لیکن ان میں زیادہ تعداد طالبات کے سکولوں کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ علاقے میں پہلے ہی سکول نہ ہونے کے برابر ہیں، ایسے میں ہر کچھ عرصہ بعد ایسے واقعات پیش آجاتے ہیں، جن سے نہ صرف پیسے کا ضیاع ہوتا ہے بلکہ بچوں کی حوصلہ شکنی بھی ہوتی ہے۔

اس واقعے کی تحقحقات میں پیش رفت معلوم کرنے کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے ڈپٹی کمشنر فیاض احمد، ایس ایچ او فقیر محمد اور ایس پی شیر خان سے رابطہ کرنےکی کوشش کی لیکن جواب موصول نہیں ہوا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان