اٹک: سکول سے نکالے گئے احمدی بچوں کو دوبارہ داخلے کی پیشکش

اٹک کے ایک نجی سکول سے چند روز قبل احمدی ہونے کی بنیاد پر نکالے جانے والے بچوں کو سکول انتظامیہ نے دوبارہ داخلے کی پیش کرتے ہوئے معافی مانگ لی۔

انچارج پریس سیکشن صدر انجمن احمدیہ پاکستان عامر محمود نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اچھی بات ہے کہ انتظامیہ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ مذہب کی بنیاد پر کسی سے امتیازی سلوک نہیں ہونا چاہیے(اے ایف پی)

اٹک کے ایک نجی سکول سے چند روز قبل احمدی ہونے کی بنیاد پر نکالے جانے والے چار بچوں کو سکول انتظامیہ نے دوبارہ داخلے کی پیش کش کرتے ہوئے معافی مانگ لی۔

ڈپٹی کمشنر اٹک حسن وقار چیمہ نے بتایا کہ چاروں بچے تین برس سے اس سکول میں پڑھ رہے تھے۔

’انہیں نکالنا سکول کی پالیسی نہیں تھی بلکہ جو بھی ہوا وہ سکول پرنسپل کی غلطی تھی۔ ہم سکول گئے، وہاں سکول کی انتظامیہ موجود تھی، پرنسپل بھی اور بچوں کے گھر والے بھی وہاں موجود تھے۔‘

ان کے مطابق ’پرنسپل نے بچوں کے اہل خانہ سے غیر مشروط معافی مانگ کر اور انہیں پیش کش کی کہ وہ بچوں کو سکول واپس بھیجیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ابھی والدین نے ہاں یا ناں میں جواب نہیں دیا کیونکہ شاید انہیں اپنے بڑوں کی اجازت درکار ہو گی۔

’البتہ ہم نے اس کیس میں انکوائری شروع کر دی ہے تاکہ معلوم کیا جاسکے کہ اس واقعے کے اصل محرکات کیا تھے۔‘

سکول سے نکالے جانے والے چار میں سے تین بچوں کے چچا نے، نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر، سکول انتظامیہ کی معذرت اور بچوں کو واپس سکول بلانے کی تصدیق کی ہے۔

بچوں کے چچا نے بتایا کہ ان کی فیملی اور بچوں کو سکول والوں نے بلایا تھا جہاں اٹک کی ضلعی انتظامیہ ای ڈی او، سکول کی پرنسپل اور انتظامیہ موجود تھی۔

’بڑے اچھے ماحول میں بات چیت ہوئی۔ انہوں نے بچوں کو واپس بھیجنے کا کہا اور معذرت بھی کی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ انہیں بتایا گیا کہ سکول کی ایسی کوئی پالیسی نہیں اور ہر بچے کو آئین کے مطابق تعلیم حاصل کرنے کا حق ہے اور جو بھی ہوا انفرادی حیثیت میں ہوا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بچوں کے چچا کا مزید کہنا تھا کہ ’اب مسئلہ یہ ہے کہ بچے تیار نہیں۔ وہ خوف زدہ ہیں کہ ایک ماہ تک وہ مذہب کے نام پر ہراساں ہوئے اور اب اگر وہ واپس آئیں گے تو ان کے ساتھ نہ جانے کیا سلوک ہو۔ وہ سکول واپس جاتے ہوئے ڈر رہے ہیں۔‘

انچارج پریس سیکشن صدر انجمن احمدیہ پاکستان عامر محمود نے کہا کہ ’اچھی بات ہے کہ انتظامیہ کو اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ مذہب کی بنیاد پر کسی سے امتیازی سلوک نہیں ہونا چاہیے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’بچوں کو واپس بلایا گیا ہے لیکن اب مسئلہ یہ ہے کہ بچے اب خطرے میں آگئے ہیں۔

’اس لیے ان کی فیملیز کو تحفظات ہیں۔ ڈی سی اٹک نے اچھا قدم اٹھایا لیکن ابھی تو وہ اپنی سیٹ پر ہیں لیکن کل کو ان کی جگہ کوئی اور آگیا تو کیا ہو گا؟‘

یاد رہے 22 ستمبر کو اٹک کے ایک نجی سکول میں زیر تعلیم چار احمدی بچوں کو سکول سے نکال دیا گیا تھا اور سرٹفیکیٹ پر سکول سے نکالے جانے کی وجہ ’احمدیت‘ لکھی گئی تھی۔

اس سرٹفیکیٹ پر سکول کی پرنسپل کے دستخط بھی موجود تھے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان