رات کے ساڑھے بارہ بجے کا وقت تھا اور ہم گہری نیند میں تھے۔ پانی کی آواز سن کر میرے والد اٹھ گئے۔ انہوں نے مجھے کہا کہ باہر جا کر دیکھو کس چیز کی آواز ہے۔
جیسے ہی ہم باہر نکلے تو دیکھا کہ پانی کا ریلہ گھروں کے بچاؤ کے لیے بنائے گئے بند تک پہنچ چکا تھا۔ ہم واپس اپنے گھروں تک ہی پہنچے تھے کہ پانچ منٹ کے اندر پانی نے گھروں کو بھی لپیٹ میں لے لیا۔
یہ کہانی ہے ضلع کچھی کے علاقے گوٹھ جھنگو کے رہائشی بہرام خان کی، جنہوں نے بتایا کہ انہوں نے فوری طور پر اپنے بچوں کو چھتوں پر پہنچایا اور محفوظ مقام پر منتقل کیا۔
بہرام نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس سے قبل مون سون کی بارشوں کے دوران سیلاب نے انہیں بے گھر کردیا تھا۔ ’اب دوبارہ ہم اسی طرح باہر بیٹھے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا: ’اس وقت ہمارے گھر پانی سے ٹوٹ چکے ہیں۔ دیواریں گرچکی ہیں اور جو بچ گئی ہیں ان میں دراڑیں پڑ چکی ہیں، جو اب رہائش کے قابل نہیں ہیں۔‘
بہرام خان کے مطابق ان کا بڑی نقصان یہ ہوا کہ پانی سے مال مویشی بہہ گئے اور اناج پانی میں ڈوب گیا ہے۔ سردیوں کا موسم شروع ہوچکا ہے جو ان کے لیے مزید مصیبتوں کا باعث بنے گا۔
دوسری جانب حالیہ بارشوں کے حوالے سے چھ نومبر کو صوبائی مشیر داخلہ میر ضیا لانگو نے محکمہ پی ڈی ایم اے اور متعلقہ ضلعی اداروں کو متحرک رہنے کی ہدایت جاری کی تھی۔
صوبائی مشیر داخلہ میر ضیااللہ لانگو نے محکمہ موسمیات کے الرٹ پر ممکنہ بارشوں کی صورت حال سے نمٹنے کے لیے محکمہ پی ڈی ایم اے اور متعلقہ ضلعی اداروں کو ہمہ وقت تیار رہنے اور کسی بھی نا خوشگوار صورت حال میں متاثرین کو فوری امداد کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے مربوط اقدامات اٹھانے کے احکامات جاری کیے تھے۔
محکمہ اطلاعات بلوچستان کی طرف سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ مشیر داخلہ میر ضیا کی خصوصی ہدایات پر صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی جانب سے محکمہ صحت اور تمام ڈپٹی کمشنرز کو باقاعدہ مراسلہ ارسال کر دیا جائے گا۔
مراسلے میں تمام متعلقہ حکام کو موجودہ موسمی صورت حال، متوقع بارشوں میں عوام کے تحفظ، بچاؤ اورریلیف کے لیے تمام ترکوششیں بروئے کار لانے کی ہدایت جاری کی جائے گی۔
موسمِ سرما کی آمد سے پہلے بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بارشوں کا سلسلہ جاری ہے جس کے باعث ضلع لسبیلہ میں عارضی راستہ سیلابی پانی کی وجہ سے بند ہوگیا۔
اسی طرح ضلع کچھ میں دریائے بولان میں بھی پانی آنے کے باعث ٹریفک کی روانی متاثر ہوئی ہے۔
محکمہ موسمیات کی طرف سے جاری رپورٹ کے مطابق منگل سے جنوبی بلوچستان میں تیز ہواؤں کے ساتھ گرج چمک کے ساتھ چند مقامات پر بارش جبکہ پہاڑی علاقوں میں برف باری کا امکان ہے۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ بدھ کے روزبھی شمالی بلوچستان میں تیز ہواؤں اور گرج چمک کے ساتھ بارش اور پہاڑی علاقوں میں برف باری کا امکان ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری جانب بلوچستان کے ضلع لورالائی اور ہرنائی میں بھی بارش اور ژالہ باری ہوئی جس سے ہرنائی میں فصلوں کو نقصان پہنچا ہے۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ سردی کی شدت میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔
مون سون کی بارشوں کے دوران بارشوں اور سیلابی ریلوں کے باعث نیشنل ڈیزاسسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان کے 32 اضلاع متاثر ہوئے اور 336 افراد ہلاک ہوئے۔
این ڈی ایم اے کی آٹھ نومبر کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ سیلابی ریلوں اور بارشوں سے بلوچستان میں 14 جون سے اب تک دو ہزار دو سو 22 کلومیٹر سڑکیں تباہ ہوئیں جبکہ ایک لاکھ 15 ہزار سے زائد گھر مکمل تباہ ہوئے ہیں۔
رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ مون سون کی بارشوں سے بلوچستان میں پانچ لاکھ مال مویشی بھی ہلاک ہوئے۔
ضلع کچھی اور دوسرے علاقوں میں بے گھر سیلاب متاثرین کو خدشہ ہے کہ مزید بارشوں اور سردی کی شدت بڑھنے کے باعث ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔
ادھر کوئٹہ کےنواحی علاقے ہنہ اوڑک میں جہاں سیلاب سے متعدد گھروں کو نقصان پہنچا تھا، متاثرہ افراد نے حکومت کی طرف سے امداد اور گھروں کی تعمیر کے لیے امداد نہ کرنے کے خلاف احتجاج بھی کیا۔
سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے کہ ضلع کچھی کے علاقے بولان میں پنجرہ پل جو مون سون کی بارشوں کے دوران سیلابی ریلوں میں بہہ گیا تھا، اس کی جگہ عارضی گزرگاہ بنائی گئی تھی وہ بھی آج پانی کے باعث متاثر ہوگئی۔
پی ڈی ایم اے کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ بولان میں پنجرہ پل کے مقام پر شاہراہ کو تمام چھوٹی اور بڑی گاڑیوں کے لیے بحال کردیا گیا ہے، جس کا کام ایمرجنسی کی بنیاد پر کیا گیا۔
بیان میں کہا گیا کہ حکومتِ بلوچستان کی ہدایت کے مطابق ضلعی انتظامیہ سمیت دیگر حکام نے ہنگامی بنیادوں پر کام کیا جس کی بدولت چند گھنٹوں میں شاہراہ پر آمدو رفت کو یقینی بنایا گیا۔