بلوچستان: جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والا فوٹوگرافر

کوئٹہ کے نوجوان وائلڈ لائف فوٹوگرافر معین خان صوبے میں جنگلی حیات کو درپیش خطرات سے آگاہی کے لیے سرگرم ہیں۔

معین کہتےہیں کہ ان کی زیادہ دلچسپی گوشت خور جانوروں کی فوٹوگرافی میں ہے (سکرین گریب)

’یہ کام سکون اور ساکن حالت میں کئی گھنٹے بیٹھنے کا ہے کیوں کہ جنگلی جانور معمولی شور سے بھی بدک جاتے ہیں۔ ان کو دور سے ریکارڈ کرنا یا تصویر لینا جان جوکھم کا کام ہے۔‘

یہ کہنا تھا شوقیہ فوٹوگرافی کرنے والے کوئٹہ کے نوجوان وائلڈ لائف فوٹوگرافر معین خان کا، جو بلوچستان کے متعدد علاقوں میں جنگلی جانوروں کا مشاہدہ کر چکے ہیں۔

معین کہتے ہیں کہ یہ کام مشکل اور سخت توجہ طلب ہے، جس میں ذہن کے ساتھ جسمانی صحت اور پہاڑوں پر چڑھنے کی ضرورت پڑتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ چونکہ بلوچستان میں اس قسم کی سرگرمیاں کم ہیں اور ان میں مشکلات زیادہ ہیں لہٰذا چند لوگ اس شعبے کی جانب متوجہ ہوتے ہیں۔

معین نے شروع میں صرف جنگلی حیات کی فوٹوگرافی پر توجہ دی۔ تاہم جانوروں کے بے دریغ شکار اور معدومی کے قریب سے مشاہدے کی وجہ سے انہوں نے اپنا کیمرہ جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔

’میں اس کام (فوٹوگرافی) کو جنگلی حیات کو درپیش خطرات سےآگاہی کے لیے استعمال کرتا ہوں اور اس مقصد کے لیے تصویری نمائشوں اور تربیتی نشستوں کا انعقاد کرتا ہوں۔‘

معین کا مزید کہنا تھا: ’اس کام سے عوام میں جانوروں سے متعلق آگاہی پیدا ہو رہی ہے اور اب بہت سارے لوگ جانوروں کے تحفظ کا کام کر رہے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ صوبے میں اس سے قبل اور اب بھی سوشل میڈیا پر لوگوں کی ویڈیوز اور تصاویر دیکھی جاسکتی ہیں، جنہوں نے بہت سے جنگلی جانور یعنی ہرن اور دوسرے شکار کیے ہوتے ہیں۔

’سوشل میڈیا اور کچھ آگاہی کے باعث اب ایسی ویڈیوز بھی وائرل ہو رہی ہیں، جن میں لوگوں کو کوئی پکڑا ہوا نایاب نسل کا جانور چھوڑتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔‘

معین کے مطابق بلوچستان میں جنگلی حیات کی فوٹوگرافی اور ویڈیو گرافی کے بہت سے مواقع ہیں کیوں کہ یہ خطہ نایاب جانوروں جیسے سلیمان مارخور، اڑیال، آئی بیکس اور چنکارا ہرن کا مسکن ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وہ مزید بتاتے ہیں کہ صوبے میں مہاجر پرندے مثلاً کونج، پیلکن اور نایاب فالکن کے علاوہ تلور بھی آتے ہیں۔

’اس حوالے سے یہاں کام کرنے کے بہت سے مواقع ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ تحفظ نہ ہونے کے باعث ان جانوروں کو تلاش کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔‘

معین کہتےہیں کہ ان کی زیادہ دلچسپی گوشت خور جانوروں میں ہے جیسے بھیڑیا اور چیتے وغیرہ، لیکن چونکہ یہ نایاب ہوچکے ہیں لہٰذا ان کی تلاش مشکل کام ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جنگلی حیات کی فوٹوگرافی اور دوسری فوٹو گرافی میں بہت فرق ہے۔ ’اس کے لیے آپ کو مطلوبہ جگہ اور وقت کا خیال رکھنا ہوتا ہے کیوں کہ جنگلی حیات اپنے مخصوص اوقات میں پہاڑوں کی چوٹیوں پر نظر آتے ہیں۔

’جیسے مارخور ہے۔ یہ آپ کو صبح کے وقت مل سکتا ہے اس کے علاوہ سہ پہر کے بعد یہ نظر آتا ہے۔ اسی طرح باقی جانوروں کے اپنے اوقات ہوتے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ وہ کمیونٹی ممبرز اور محکمہ جنگلات کا عملہ جو پہاڑوں پر ڈیوٹی دیتا ہے، ان کی تربیت کے لیے بھی پروگرام کرواتے ہیں۔

معین خان نے بتایا کہ انہوں نے پہلی دفعہ بیوٹمز یونیورسٹی میں وائلڈ لائف کے حوالے سے فوٹوگرافی کی نمائش بھی کرائی تاکہ لوگوں کو یہاں پر موجود اور نایاب جانوروں کے حوالے سے آگاہی مل سکے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات