گلیات کی جنگلی حیات کے مسیحا پولیس کانسٹیبل محمد عمران

عمران بطور ہیڈ کانسٹیبل ایبٹ آباد کی ایک پولیس چوکی چھانگلہ گلی میں تعینات ہیں جہاں اپنی کم تنخواہ اور محدود سہولتوں کے باوجود وہ گلیات میں موجود جانوروں کے لیے مسیحا بھی بن گئے ہیں۔

صوبہ خیبر پختونخواہ پولیس کے اہلکار محمد عمران عوامی خدمت کے ساتھ گذشتہ دو مہینوں سے گلیات میں موجود بندروں کے لیے روزمرہ کی بنیاد پر خوراک کا انتظام کرتے ہیں۔

سانحہ مری سے قبل جہاں گلیات اور مری کی سڑکوں پر ہزاروں سیاح گھومتے پھرتے نظر آتے تھے اور وہ بندروں کو خوراک فراہم کرتے تھے اب سیاحوں کی آمد و رفت میں واضح کمی اور شدید برف باری کے باعث یہاں کے بندروں کو مناسب خوراک نہیں مل پا رہی جس کی وجہ سے انہیں کئی روز بھوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

بحران کی اس گھڑی میں محمد عمران ہی ہیں جو روزانہ آ کر کچھ خوراک بندروں کو ڈالتے ہیں۔

عمران بطور ہیڈ کانسٹیبل ایبٹ آباد کی ایک پولیس چوکی چھانگلہ گلی میں تعینات ہیں جہاں اپنی کم تنخواہ اور محدود سہولتوں کے باوجود وہ نہ صرف اپنا فرض نبھا رہے ہیں بلکہ گلیات میں موجود جانوروں کے لیے مسیحا بھی بن گئے۔

محمد عمران نے انڈیپنڈنٹ اردو کو اپنے خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ ’سات اور آٹھ جنوری کی درمیانی شب کو جب گلیات اور مری میں برفانی طوفان آیا اور سیاح محصور ہو کر رہ گئے تھے تو انہوں نے پولیس چوکی چھانگلہ گلی کی حدود میں پھنسے 50 سے زائد سیاحوں کو ریسکیو کرکے قریبی ہوٹل اور چوکی میں رہائش فراہم کی۔‘

’اس دوران جب وہ پولیس ملازمین اور سیاحوں کے لیے کھانے کا سامان لے کر آ رہے تھے تو برف میں پھنسے جانوروں نے جن میں بندر اور کتے بھی شامل ہیں ان سے سامان چھیننے کی کوشش کی۔

عمران کے مطابق ’یہ صورت حال دیکھنے کے بعد مجھے احساس ہواکہ سخت سردی میں یہ جانور بھی بھوکے ہیں جس کے بعد میں نے وہ کھانا انھیں ڈال دیا اور روزانہ اپنی بساط کے مطابق انھیں کھانا فراہم کرنے کا فیصلہ کر لیا۔‘

عمران کے بقول یہ ان کی زندگی میں اہم موڑ تھا جس نے انھیں یکسر بدل کر رکھ دیا اور تب سے وہ جب بھی روزانہ معمول کی گشت پر نکلتے ہیں تو بندروں کے لیے کھانا جمع کر لیتے ہیں۔ جب کہ پولیس کی گاڑی دیکھتے ہی بندر اس کے گرد جمع ہو جاتے ہیں اور جیسے ہی وہ کھانا لے کر باہر نکلتے ہیں تو بندروں کے سارے طور طریقے غائب ہو جاتے ہیں اور وہ اچھل کود کرتے ہوئے ہاتھ سے کھانا چھین کر چٹ کر جاتے ہیں۔

اگرچہ بندر اور گلیات کے باقی جانور اپنی خوراک غذائی زنجیر کے ذریعے حاصل کرتے ہیں مگر عام حالات میں سیاح علاقے میں سیر و تفریح کے دوران بندروں کو کھانے پینے کی اشیا دیتے ہیں جن کی وجہ سے ان کی عادتوں میں بھی کافی فرق پڑا ہے۔

مقامی صحافی نوید اکرم عباسی نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اس دفعہ شدید ترین برف باری کے باعث جب گلیات کے سیاحتی مقامات پر ہوکا عالم تھا تو سیاحت سے وابستہ لوگوں کے ساتھ ساتھ اس خطہ میں موجود جنگلی حیات اور خاص کر بندروں کی بہت بڑی تعداد جو سیاحوں کے محتاج تھے نے بڑی تعداد میں خوراک کی تلاش میں آبادیوں کا رخ کیا۔ جب کہ ڈونگا گلی، توحید آباد، کوزہ گلی اور چھانگلہ گلی میں رہ جانے والے بندروں کو روشنی کے سفید مینارے کی طرح کھڑے ایبٹ آباد پولیس کے اہلکار محمد عمران نے وہاں کے مقامی ہوٹل مالکان کے مدد سے خوراک پہنچا کر سب کے دل جیت لیے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عمران نے مزید بتایا کہ بندروں کو خوراک ڈالنا ان کا روزمرہ کا معمول ہے اور وہ باقاعدگی سے انھیں دکان سے خرید کر چھلیاں، گندم، املوک اور ڈبل روٹی وغیرہ ڈالتے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’حالاںکہ جنگلوں میں جاندار غذائی زنجیر کے ذریعے اپنی خوراک کا بندوبست کرتے ہیں مگر طوفانی برف باری کے باعث یہاں نظام زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا تھا اس لیے انسانوں کی طرح جنگلی حیات بھی سخت خوراک کی قلت کا شکار رہی اس لیے میں انسانی خدمت کے طور پر یہ کام کررہا ہوں۔‘

پولیس چوکی چھانگلہ گلی کے انچارج سب انسپکٹر حامد شاہ کا کہنا تھا کہ انسانیت کی اعلیٰ مثال قائم کرنے والے عمران کے اس عمل پر عوام اور افسران سب ہی نے ان کو خراج تحسین پیش کیا۔ان کا خیال ہے کہ عمران کی یہ کہانی سن کر دیگر افراد میں بھی یہ جذبہ بڑھے گا۔

کراچی سے آئی ایک سیاح شہنیلہ اویس بھی محمد عمران کو بندروں کو خوراک ڈالتے دیکھ کر داد دیے بغیر نہ رہ سکیں۔

 شہنیلہ کا کہنا تھا کہ ایک پولیس اہلکار مالی وسائل نہ ہونے کے باوجود دو مہینوں سے یہاں کے جنگلی حیات کا جس طرح سے خیال رکھ رہا ہے متاثر کن ہے۔ ’یہ ہمارے لیے پیغام اور ترغیب ہے کہ ہم سب بھی ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ جنگلی حیات اور اپنے ماحول کا ایسے خیال رکھیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا