خیبرپختونخوا :’انصاف تعلیم کارڈ‘ میں طلبہ کے لیے کیا شامل ہے؟

صوبائی وزیر برائے اعلیٰ تعلیم کامران خان بنگش کے مطابق ابتدائی طور پر ایک سال تک جاری رہنے والے اس پروگرام کے لیے ایک ارب پانچ کروڑ روپے جاری کیے گئے ہیں۔

17 ستمبر 2018 کی اس تصویر میں پشاور کے ایک سرکاری تعلیمی ادارے میں طلبہ کلاس روم میں بیٹھے ہیں(اے ایف پی)

خیبر پختونخوا کی کابینہ نے 22 نومبر کو خیبر پختونخوا کے طلبا و طالبات کے لیے ’انصاف تعلیم کارڈ‘ کے نام سے ایک نئے پروگرام کا آغاز کیا ہے جس کے تحت سرکاری کالجز میں پڑھنے والے طلبہ کو فیس سمیت دیگر اخراجات کے لیے خرچ کی جانے والی رقم واپس کی جائے گی۔

یہ پروگرام ابتدائی طور پر ایک سال کے لیے ہو گا جس کے لیے صوبائی وزیر برائے اعلی تعلیم کامران خان بنگش کے مطابق ایک ارب پانچ کروڑ روپے جاری کیے گئے ہیں۔

کامران بنگش نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ملک میں پہلے کرونا کی وبا نے عوام کی آمدنی پر منفی اثر ڈالا تھا اور اس کے بعد بے تحاشا مہنگائی نے بھی لوگوں کا جینا مشکل کردیا ہے، اسی وجہ سے ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ سرکاری کالجز میں پڑھنے والے طلبہ کے لیے یہ پروگرام شروع کیا جائے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’ابتدائی مرحلے میں یہ منصوبہ ایک سال کے لیے ہوگا اور اس سے صوبے بھر میں سرکاری ڈگری اور کامرس کالجز میں انٹر اور دیگر شعبہ جات میں پڑھنے والے دو لاکھ 60 ہزار سے زیادہ طلبہ مستفید ہوں گے، جب کہ سرکاری ڈگری کالجز میں پڑھنے والے چار سالہ بی ایس پروگرام کے طلبہ کے دو سمسٹرز کی فیس کی واپسی بھی اسی پروگرام میں شامل ہے۔‘

محکمہ اعلٰی تعلیم کے مطابق خیبر پختونخوا میں مجموعی طور پر کالجز کی تعداد 274 ہیں جن میں دو لاکھ 44 ہزار سے زائد طلبہ زیر تعلیم ہیں جبکہ صوبہ بھر میں کامرس کالجز کی تعداد 42 ہے جس میں 17 ہزار سے زائد طلبہ پڑھ رہے ہیں۔

انصاف تعلیم کارڈ میں کیا کیا شامل ہے؟

اس حوالے سے کامران بنگش نے بتایا کہ ’یہ فیس واپسی کا پروگرام ہے جس میں طلبہ کو ان کی ٹیوشن فیس سمیت دیگر کالج کے اخراجات واپس کیے جائیں گے۔ اس منصوبے کے لیے سب سے زیادہ فنڈ ڈگری کالجز کے لیے رکھے گئے ہیں جو تقریبا ایک ارب روپے ہیں، اس کی تحت کالجز میں پڑھنے والے طلبہ کی فیس واپس کی جائے گی۔

اسی طرح کامران بنگش کے مطابق ’اس ٹیوشن فیس سمیت دیگر اخراجات یعنی داخلہ فیس، امتحانات کی فیس اور دیگر اخراجات بھی طلبہ کو واپس اداکیے جائیں گے۔‘

کامران بنگش نے بتایا کہ ’انٹر کے طلبہ کے علاوہ اس میں ڈگری کالجز کے بی ایس چار سالہ پروگرام کے طلبہ بھی شامل ہوں گے لیکن ابتدائی مرحلے میں بی ایس کے طلبہ کے دو سمسٹز کی فیس اس منصوبے کے تحت طلبہ کو واپس کی جائے گی۔‘

انصاف تعلیم کارڈ کے حصول کا طریقہ کار کیا ہو گا؟

کامران بنگش کے مطابق انصاف تعلیم کارڈ کا حصول نہایت آسان ہے اور صوبے کے سرکاری کالجز میں پڑھنے والے تمام طلبہ اس کے اہل ہوں گے۔

انہوں نے بتایا کہ ’جو طلبہ کالج میں پڑھ رہے ہیں پہلے وہ اپنی فیس ادا کریں گے اور پھر انہی طلبہ کی فہرست محکمہ اعلٰی تعلیم کو بھیجی جائے گی اور اس کے بعد ان طلبہ کو ایک کارڈ دیا جائے گا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کامران بنگش نے بتایا ’ان طلبہ کو انصاف تعلیم کارڈ دیا جائے گا اور خیبر بینک کی جانب سے طلبہ کے اکاونٹ میں پیسے منتقل کیے جائیں گے۔ اگر کسی طالب علم کی عمر 18 سال سے کم ہے تو پیسے ان کے والدین کے اکاونٹ میں ٹرانسفر کر دیے جائیں گے۔‘

کامران بنگش سے پوچھا گیا کہ یہ منصوبہ تو ایک سال کے لیے ہے، اس کو برقرار رکھنے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں؟ تو ان کا کہنا تھا کہ ’ابھی کابینہ نے صرف ایک سال کے لیے اس کی مظوری دی ہے اور ہم اس منصوبے کے نتائج دیکھیں گے۔‘

ان کے مطابق ’اس منصوبے کے نتائج دیکھ کر بعد میں فیصلہ کیا جائے گا کہ اس کو مزید توسیع دینی ہے یا نہیں، کیوں کہ ہر سال بجٹ میں اس قسم کے منصوبوں کے لیے رقم مختص کی جاتی ہے۔ اسی طرح اس منصوبے کو بھی آگے لے کر جانے کے لیے بجٹ اور صوبے کے معاشی حالات کو دیکھ کر فیصلے کیے جاتے ہیں۔‘

آج کل سرکاری کالجز کی فیس کتنی ہے ؟

سرکاری کالجز کے حوالے سے عام تاثر تو یہ ہے کہ ان میں تعلیم مفت دی جاتی ہے تاہم ایسا نہیں ہے ۔

خیبر پختونخوا کے سرکاری کالجز کی بات کی جائے تو محکمہ اعلٰی تعلیم کے فیس سٹرکچر کے مطابق صوبے کے سرکاری کالجز میں انٹر کے طلبہ کی فیس 2000 سے لے کر 3000 روپے تک ہے۔

اس فیس میں داخلہ فیس، ٹیوشن فیس، رجسٹریشن فیس، نجی جنرل فنڈ، سکیورٹی فیس، اور کمپیوٹر مینٹیننس فیس شامل ہے۔ اسی طرح بی ایس کے چار سالہ پروگرام میں پڑھنے والے طلبہ کی فیس تقریباً 5000 روپے ہے۔

طلبہ کیا کہتے ہیں؟

سرکاری کالجز میں پڑھنے والے طلبہ حکومت کے اس فیصلے سے خوش تو ہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ ’ڈگری کالجز کے علاوہ بھی صوبے میں سرکاری جامعات کے زیر نگرانی کالجز کے طلبہ کو بھی فیس میں رعایت دی جائے تو اس سے طلبہ کی حوصلہ افزائی ہو گی۔‘

صائمہ بیگم اسلامیہ کالج پشاور میں انٹر کی طالبہ ہیں اور ان کے مطابق انہوں نے میٹرک میں اچھے نمبر حاصل کر کے اسلامیہ کالج میں داخلہ لیا لیکن یہاں کی فیس ایک متوسط خاندان کے لیے برداشت کرنا مشکل ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ’ابھی کالج کی سالانہ فیس تقریبا 60 ہزار روپے ہے اور ایک معاشی طور پر کمزور خاندان کے لیے اتنی فیس جمع کرنا بہت مشکل ہوتا ہے جب کہ معیاری تعلیم کی حصول کے لیے وہ اچھے کالجز میں داخلہ لینے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔‘

ان کے بقول ’پشاور کی بات کی جائے تو صوبے بھر کے ہونہار طلبہ اسلامیہ کالج، جناح کالج اور چند دیگر اچھے کالجز میں داخلہ لینے کے خواہش مند ہوتے ہیں لیکن ان کالجز کی فیس برداشت سے باہر ہو رہی ہے اس لیے حکومت کو اس پر دھیان دینا چاہیے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل