ہم تکلیف دہ رشتوں سے باہر کیوں نہیں نکلنا چاہتے؟ 

نفسیاتی طور پر تکلیف دہ رشتہ کسی رولر کوسٹر کی طرح ہے جس میں آپ کو کبھی سزا ملتی ہے اور اُس وقت آپ کے ساتھ شفقت برتی جاتی ہے جب آپ ’اچھے رویے‘ کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

کچھ لوگ ایسے تعلق کو اس لیے جاری رکھتے ہیں کہ وہ اپنے ساتھی کی محبت کو دوبارہ پانا چاہتے ہیں۔ لیکن  ایسی صورتحال میں متاثرہ افراد بھی کچھ وقت کے بعد اپنے متشدد ساتھی سے جذباتی طور پر جڑ جاتے ہیں جس کو ’ٹراما بونڈنگ‘ کہا جا سکتا ہے (آئی سٹاک فوٹو)

جو لوگ کبھی کسی تکلیف دہ رشتے میں نہیں رہے، انہیں اکثر یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ لوگ ایسے تعلق کو سالوں تک کیوں جاری رکھتے ہیں؟ وہ پوچھتے ہیں: ’اگر کوئی آپ سے اچھا سلوک نہیں کر رہا تھا تو آپ نے یہ رشتہ کیوں جاری رکھا؟‘

ایسے رشتوں سے متاثرہ افراد کے لیے یہ ایک مشکل سوال ہو سکتا ہے۔ وہ لوگ خوش قسمت ہوتے ہیں جو ایسے تعلق سے بچ نکلتے ہیں اور پھر انہیں کتابیں یا کوئی اخباری آرٹیکل یہ سمجھنے میں مدد دیتا ہے کہ ان کے ساتھ کیا ہوا تھا اور وہ اپنے تجربات بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کچھ لوگوں کو اس بات کا اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ وہ ایک ایسے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں جسے مشکل یا تکلیف دہ کہا جاسکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم ہمیشہ ایسے رشتے کو ہی تکلیف دہ سمجھتے ہیں، جس میں تشدد کا عنصر پایا جاتا ہو۔ ہم ٹی اور فلموں میں دیکھتے ہیں کہ کچھ کردار بہت زیادہ منفی ہوتے ہیں۔ وہ اپنے ساتھی کے ساتھ پُرتشدد انداز میں پیش آتے ہیں۔ وہ ان پر چیختے چلاتے ہیں اور اکثر غصے میں انہیں قتل تک کر دیتے ہیں۔حقیقت میں بھی ایسا ہوتا ہے لیکن کچھ لوگوں کو مختلف انداز کی تکالیف کا سامنا ہو سکتا ہے۔

’ہیلنگ آف ہڈن ابیوز‘ کی لکھاری اور تھراپسٹ شینن تھامس کے مطابق ’نفسیاتی تشدد ایک اندرونی معاملہ ہے۔ یہ طویل عرصے پر محیط ہوتا ہے جو آپ کی رگوں میں کسی زہر کی طرح داخل ہوتا رہتا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے: ’یہ کسی عجیب یا ہتک آمیز جملے سے شروع ہو سکتا ہے اور اس کے متاثرین اس پر زیادہ توجہ بھی نہیں دیتے ہوں گے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ تکلیف دینے والے وہ خصوصیات دکھانے کی مکمل کوشش کرتے ہیں جو آپ اپنے ساتھی میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ آپ کے ساتھ بے انتہا انسیت سے پیش آتے ہیں۔ اس کے متاثرین سوچتے ہیں کہ یہی اس انسان کا حقیقی روپ ہے، لیکن جب وہ ایک کے بعد ایک منفی حرکت کرتے ہیں تو متاثرہ فرد کو یہی لگتا ہے کہ یہ اچانک سے ہو گیا ہے اور اس میں شاید متاثرہ فرد کی اپنی ہی غلطی ہوگی جس کی وجہ سے ان کا ساتھی غصے میں آگیا ہے۔‘

کچھ لوگ ایسے تعلق کو اس لیے جاری رکھتے ہیں کہ وہ اپنے ساتھی کی محبت کو دوبارہ پانا چاہتے ہیں۔ لیکن تھامس کے مطابق ایسی صورتحال میں متاثرہ افراد بھی کچھ وقت کے بعد اپنے متشدد ساتھی سے جذباتی طور پر جڑ جاتے ہیں جس کو ’ٹراما بونڈنگ‘ کہا جا سکتا ہے۔

یہ ایک نشے کی طرح ہے!

یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ کسی نشے کے عادی ہو جاتے ہیں۔ نفسیاتی طور پر تکلیف دہ رشتہ کسی رولر کوسٹر کی طرح ہے جس میں آپ کو کبھی سزا ملتی ہے اور اُس وقت آپ کے ساتھ شفقت برتی جاتی ہے جب آپ ’اچھے رویے‘ کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ اس کے دوران جسم اپنے طور پر ایک مشکل سے گزر رہا ہوتا ہے، جس میں نفسیاتی دباؤ اور کولیسٹرول کی مقدار میں اضافے جیسے مسائل شامل ہیں۔اس دوران محبت کسی انعام کے طور پر دی جاتی ہے۔

شینن کہتی ہیں: ’اس میں کمی یا اضافہ ہوتا رہتا ہے اور آپ کا جسم اس کا عادی ہو جاتا ہے۔ جب ہم کسی چیز کی خواہش کرتے ہیں جو کسی اور  پر منحصر ہوتی ہے تو وہ چوہے بلی کا کھیل کھیلنا شروع کر دیتے ہیں، جس میں کبھی تار کھینچ لی جاتی ہے اور کبھی ڈھیلی چھوڑ دی جاتی ہے تو جسم اس کا عادی بن جاتا ہے اور ان کی تعریف کا طلب گار بن جاتا ہے۔‘

یہ ہارمونل رولر کوسٹر انسان کو بہت بری طرح متاثر کرتی ہے۔ اس کے متاثرہ افراد شاید چھائیوں کا شکار ہو جائیں چہ جائیکہ ان کی جلد ہمیشہ بہت خوبصورت رہی ہے۔ ان کے سینے میں بھی درد ہو سکتا ہے۔ شینن کہتی ہیں کہ وہ ایسے مریضوں کو بھی دیکھ چکی ہیں جو آٹو امیون ڈس آرڈر کا شکار ہو جاتے ہیں۔

شینن کے مطابق: ’ایسی صورتحال میں ان کے جسم کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں اور وہ شدید درد کا شکار ہو جاتے ہیں۔ جس میں جسمانی درد، مائیگرین اور آرتھرائٹس کا درد بھی شامل ہو سکتا ہے۔ وہ انفیکشن کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کھو دیتے ہیں۔ ایک جسم اس سے زیادہ تکالیف برداشت نہیں کر سکتا۔‘

متاثرین ان تمام تکالیف کے باجود بھی اس رشتے سے جڑے رہتے ہیں کیونکہ وہ اصل مسائل کا ادراک نہیں کر پاتے۔ مسلسل دباؤ اور بے ربط محبت سے متشدد ساتھی، متاثرہ فرد کو اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ وہ خود کو ہی الزام دے کر اپنے ساتھی کی محبت واپس پانے کی کوشش کرے۔

بدقسمتی سے بہت سارے لوگ جو ایسے تعلق سے جان چھڑانا چاہتے ہیں وہ اس تعلق میں واپس آجاتے ہیں۔ کچھ تو اس سے نکلنے کی کوشش ہی نہیں کرتے اور وہ اس رشتے سے صرف اُسی صورت میں نکل سکتے ہیں جب انہیں دھتکار دیا جاتا ہے۔

کسی نرگسیت پسند یا نفسیاتی مسائل کے شکار فرد سے مشکل تعلق بھی ایسی ہی علامات رکھتا ہے۔ پسندیدگی، کم مائیگی اور آخر کار دھتکارے جانے کے بعد متاثرہ فرد ایک دم ٹوٹ کر رہ جاتا ہے۔ اس کے بعد متشدد ساتھی ان کو استعمال کرکے مزید فوائد حاصل نہیں کرسکتا۔ وہ ان کو مکمل طور پر توڑ چکے ہوتے ہیں۔ ان کا اعتماد تباہ کرچکے ہیں جس کے بعد وہ کسی اور ہدف کے تعاقب میں چل نکلتے ہیں۔

لیکن شینن کے مطابق ’ایسا ہونے کے بعد متاثرہ فریق اس بات کو سمجھنے لگتے ہیں کہ انہیں بری طرح استعمال کیا گیا ہے۔ وہ افسردہ ہوتے ہیں اور پھر وہ اس نقصان کو دیکھنے لگتے ہیں جو انہیں پہنچایا گیا ہے اور وہ یہ مان لیتے ہیں کہ یہ ان کی غلطی نہیں تھی اور اس کے بعد ہی ان زخموں کے بھرنے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔‘

شینن کہتی ہیں کہ ’اس کے بعد یہ متاثرہ فرد سمجھتے ہیں کہ وہ اس لیے نشانہ نہیں بنے تھے کہ وہ کمزور تھے بلکہ وہ اس لیے اس سب کا شکار ہوئے کیونکہ ان کے پاس دینے کو بہت کچھ تھا۔‘

ٹراما بونڈنگ کی علامات کیا ہیں؟

آپ بھی کسی کے ساتھ ’ٹراما بونڈنگ‘ کے تعلق میں ہیں تو اس کی یہ علامات ہو سکتی ہیں۔

آپ کے ساتھی کا وعدے کرنا لیکن ان کی مسلسل خلاف ورزی کرنا۔

آپ کے ساتھ ہونے والے کسی واقعے پر اوروں کا برا منانا لیکن آپ اس کو بھول کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔

آپ اس رشتے میں پھنس چکے ہیں کیونکہ آپ کو باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں نظر آرہا۔

ایک ہی بات پر بار بار لڑائی جھگڑے ہونا جن کا کوئی نتیجہ نہ نکلنا۔

آپ کی کسی ’غلطی‘ پر آپ کے ساتھی کا کچھ نہ کہتے ہوئے صرف خاموش رہنا۔

اپنے ساتھی کے ساتھ نہ رہنے کی خواہش کے باجود بھی آپ اس رشتے کو نہیں چھوڑ سکتے۔

جب آپ اس رشتے سے نکلنا چاہیں تو آپ کو لگتا ہے کہ اپنے ساتھی سے دور رہنا آپ کو مکمل طور پر تباہ کر کے رکھ دے گا۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق