’ڈالر کی افغانستان سمگلنگ رکنے تک قیمت میں کمی ممکن نہیں‘

پاکستان کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن کے سربراہ ملک بوستان کے مطابق پاکستان کی اوپن مارکیٹ کے مقابلے میں افغانستان میں ڈالر کی قیمت 20 روپے زیادہ ہے اور اس لیے بہت بڑی مقدار میں ڈالر سرحد پار جا رہا ہے۔

اگر حکومت یہ طے کرلے کہ ہر صورت میں ڈالر کا ریٹ نیچے لانا ہے تو کوئی طاقت ریٹ نیچے لانے میں رکاوٹ نہیں بن سکتی: ظفر پراچہ (اے ایف پی)

پاکستان میں گذشتہ چند ماہ کے دوران امریکی ڈالر کی قدر میں بڑا اضافہ دیکھا گیا ہے اور حکومتی عہدے دار ڈالر کی قیمت کو مستحکم رکھنے کے بیانات جاری کر چکے ہیں جبکہ وزیرخزانہ اسحاق ڈار تو یہ تک کہہ چکے ہیں کہ ڈالر کی قدر اس کی موجودہ قیمت سے بھی کم ہے۔

تاہم ان بیانات کے باوجود ڈالر کی قیمت میں کمی نہیں آ سکی، جس کی مختلف وجوہات بیان کی جا رہی ہیں۔

کرنسی ڈیلرز کی تنظیم ’پاکستان کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن‘ کے چیئرمین ملک بوستان نے کہا ہے حکومتی اعلانات کے باوجود پاکستان میں امریکی ڈالر کی قیمت نہ گرنے کی بڑی وجہ ڈالر کی افغانستان سمگلنگ اور دوست ممالک سے قرض نہ ملنا ہیں۔  

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ملک بوستان نے کہا: ’افغانستان پر تاحال پابندیاں ہیں اور وہاں ڈالر کا کوئی اور ذریعہ نہیں اور ان کی تجارت مکمل طور پر ڈالر سے ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’پاکستان کی اوپن مارکیٹ کے مقابلے میں افغانستان میں ڈالر کی قیمت 20 روپے زیادہ ہے اور اس لیے بہت بڑی تعداد میں امریکی ڈالرز غیرقانونی طریقے سے افغانستان جا رہے ہیں۔‘

ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’ڈالر کی افغانستان سمگلنگ پر مکمل قابو پانے کے علاوہ افغانستان کی تجارت افغانی کرنسی یا پاکستانی روپے میں کرنے سے ڈالر کی قیمت نیچے لائی جا سکتی ہے۔‘

ملک بوستان کا کہنا تھا: ’پاکستانی ریاست کی پالیسی ہے کہ (اپنا) ملک تباہ ہو جائے لیکن افغانستان کے ساتھ سفارتی تعلقات خراب نہیں کرنے، لیکن اب وقت آگیا ہے کہ اس پالیسی پر نظر ثانی کی جائے۔‘  

جمعرات کو انٹربینک میں کاروبار کے اختتام پر ایک امریکی ڈالر کا بھاؤ بغیر کسی تبدیلی کے 224 روپے 71 پیسے پر برقرار رہا، جبکہ اوپن مارکیٹ میں امریکی ڈالر 234 روپے پر دستیاب رہا۔

پاکستان میں ڈالر کی قیمت میں استحکام کے باوجود امریکی کرنسی کی قدر میں واضح کمی آتی دکھائی نہیں دے رہی۔ 

ملک بوستان کے مطابق برے وقت میں دوست ممالک نے پاکستان کا ساتھ نہیں دیا، اس لیے حکومتی اعلانات کے باجود ڈالر کا ریٹ مسلسل اوپر جاتا رہا۔  

ان کا کہنا تھا: ’سعودی عرب اور چین سے پاکستان کو 13 ارب ڈالر کا آسرا تھا، جس میں سے دونوں ممالک نے تین، تین ارب ڈالر کی اقساط معاف کر دیں اور ابھی تک مجموعی طور پر سات ارب ڈالر اسلام آباد کو دینا ہیں۔

’اگر یہ سات ارب جلد آجاتے ہیں تو ڈالر کی قیمت پر فرق پڑ سکتا ہے، ورنہ قیمت میں اضافہ جاری رہے گا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری ظفر پراچہ نے پاکستان میں ڈالر کی قیمت میں کمی نہ ہونے کا ذمہ دار بیرونی ممالک سے بذریعہ آفیشل چینل آنے والی رقوم کے سرکاری طریقہ کار میں انتہائی سختی، درآمدی تیل کے استعمال کے ذرائع اور سرکاری اخراجات میں کمی نہ ہونے کو قرار دیا ہے۔  

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ظفر پراچہ نے کہا: ’حکومت نے حالیہ عرصے کے دوران بیرونی ممالک سے بینکوں کے ذریعے آنے والی رقوم پر اتنی سختی کردی ہے کہ اس کے مقابل ’گرے مارکیٹ‘ یا ہنڈی حوالہ کا کام تیز ہوگیا ہے، جہاں اوپن مارکیٹ کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت 20 سے 25 روپے زیادہ ہے، تو لوگ جب گرے مارکیٹ کا ستعمال کریں گے اور ڈالر موجود نہیں ہوگا تو ریٹ کیسے نیچے لایا جاکستا ہے؟‘

ظفر پراچہ کے مطابق: ’اگر حکومت یہ طے کرلے کہ ہر صورت میں ڈالر کا ریٹ نیچے لانا ہے تو کوئی طاقت ریٹ نیچے لانے میں رکاوٹ نہیں بن سکتی۔

’اگر حکومت 80 رکنی کابینہ اور سینکڑوں ارکان پارلیمنٹ کے غیر ملکی دوروں، الاؤنسز اور مہنگی گاڑیوں سمیت دیگر اخراجات کو کم کرے تو ڈالر کا ریٹ مستقل طور پر نیچے آسکتا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’ملک کی معاشی حالت اتنی بھی خراب نہیں ہے، جتنی پیش کی جا رہی ہے۔

’اگر درآمدی تیل کو کم کرنے کے لیے ہفتے میں کام کے دنوں کو کم کرنے سمیت تیل کے استعمال کو کم کرنے کے حوالے سے انتظامات کیے جائیں تو بھی ڈالر کی قیمت پر بڑا اثر ہوسکتا ہے۔

’اس کے علاوہ افغانستان اور ایران کے ساتھ تجارتی پالیسی کا بھی ازسر نو جائزہ لینا ہوگا۔‘

سٹیٹ بینک آف پاکستان کی گذشتہ روز جاری کردہ رپورٹ کے مطابق مالی سال 2022 اور 2023 کے جولائی سے نومبر تک پہلے پانچ مہینوں کے دوران بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی گئی رقوم میں گذشتہ سال کے اسی عرصے کے دوران بھیجی گئی رقوم کے مقابلے میں  نو اعشاریہ 77 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔  

رپورٹ کے مطابق حالیہ سال کے پہلے پانچ ماہ کے دوران بیرون ملک پاکستانی ورکرز کی جانب سے 12 ارب ڈالر بھیجے گئے، جبکہ گذشتہ مالی سال کے دوران اسی عرصے میں 13.3 ارب ڈالر موصول ہوئے تھے۔

یوں گذشتہ سال کی نسبت اس سال اسی عرصے کے دوران ایک اعشاریہ تین ارب ڈالر کی کمی واقع ہوئی ہے۔  

مارکیٹ ذرائع کے مطابق ہنڈی اور حوالہ میں ڈالر کی قیمت اوپن مارکیٹ کی نسبت 20 روپے زیادہ ادا کی جا رہی ہے، جو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی رقوم میں کمی کا ایک اور سبب ہو سکتا ہے۔

(ایڈیٹنگ: عبداللہ جان/فرخ عباس)

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت