بھارت کشمیر میں اچانک اضافی فوج کیوں تعینات کر رہا ہے؟

بھارتی حکومت نے اپنے زیر انتظام کشمیر میں مزید دس ہزار نیم فوجی دستوں کی تعیناتی کی کوئی واضح وجہ بیان نہیں کی، تاہم اس سے مقامی افراد میں بے چینی پھیل گئی ہے۔

دہلی میں حکام کا کہنا ہے کہ وادی میں اضافی فوجیوں کی تعداد 20 ہزار تک بڑھائی جا سکتی ہے (فائل تصویر: اے ایف پی)

بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں مزید دس ہزار نیم فوجی دستوں کی تعیناتی کے فیصلے کے تناظر میں وادی کی پہلے سے کشیدہ صورتحال مزید سنگین ہوگئی ہے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی جنگوں کا باعث بننے والے اس متنازع خطے میں دہلی حکومت نے کم از کم پانچ لاکھ فوجی اہلکار تعینات کر رکھے ہیں جبکہ ایک اندازے کے مطابق یہ تعداد ساڑھے چھ لاکھ کے قریب ہے جن میں پولیس اہلکار اور نیم فوجی دستے بھی شامل ہیں۔

بھارتی حکومت نے حالیہ دس ہزار نیم فوجی دستوں کی تعیناتی کی کوئی واضح وجہ بیان نہیں کی ہے تاہم اس اقدام سے مقامی افراد میں بے چینی پھیل گئی ہے۔

اس بے چینی کی وجہ وہ افواہیں ہیں، جن میں کہا جا رہا ہے کہ قوم پرست اور ہندو انتہا پسند حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے بھارتی آئین سے آرٹیکل 35 اے ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے اور اضافی بھارتی اہلکاروں کی تعیناتی کا مقصد وادی میں ممکنہ ردعمل اور مظاہروں کو روکنا ہے۔

مقامی افراد نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ مودی سرکار آرٹیکل 35 اے کو ختم کرنا چاہتی ہے جس کے تحت غیر ریاستی بھارتی باشندے جموں و کشمیر میں جائیدادیں اور زمینیں خرید سکیں گے جس سے متنازع خطے میں مسلم اکثریت خطرے میں پڑ جائے گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب نیم فوجی دستے اچانک وادی میں بھیجنے کے حوالے سے بھارتی حکومت کا کہنا ہے کہ ’یہ پیش رفت معمول کی کارروائی ہے۔‘

دہلی میں حکام کا کہنا ہے کہ وادی میں اضافی فوجیوں کی تعداد 20 ہزار تک بڑھائی جا سکتی ہے جو گذشتہ سال مقامی انتخابات سے تعینات فوجیوں کی جگہ لیں گے اور سالانہ ہندو زیارت کے موقع پر یاتریوں کی حفاظت کے لیے بھی فرائض سر انجام دیں گے۔

ڈائریکٹر جنرل آف پولیس دلباغ سنگھ نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’فوجی دستے سات ماہ سے مسلسل کام کر رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ چھٹیوں پر اور کچھ تربیت کے لیے وادی سے باہر جا رہے ہیں۔‘

انہوں نے مزید بتایا: ’ہم نے (دہلی سے) مزید 200 کمپنیاں (20،000 فوجیوں) کی تعیناتی کی درخواست کی تھی اور زیادہ امکان ہے کہ اس سے بھی زیادہ فوجی (کشمیر) بھیجے جائیں۔‘

ایک سینیئر بھارتی سیکیورٹی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ وادی میں ممکنہ احتجاج کے تناظر میں اضافی فوجی تعینات کیے جا رہے ہیں تاہم انہوں نے اس کی مزید تفصیلات نہیں بتائیں۔

یہ بھی پڑھیں: ریپ کی آڑ میں کشمیر میں سازشیں

انہوں نے مزید کہا کہ کشمیر میں ایسے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں جو اس سے قبل کبھی نہیں دیکھے گئے تھے۔

یہ پیش رفت حال ہی میں پاکستانی وزیراعظم عمران خان اور امریکی صدر کی وائٹ ہاؤس میں ملاقات کے بعد سامنے آئی ہے، جس میں ڈونلڈ ٹرمپ نے انکشاف کیا تھا کہ بھارتی وزیراعظم نے ان سے کشمیر کے مسٔلے پر ثالثی کی درخواست کی تھی۔

امریکی صدر کے اس بیان کے بعد بھارت میں بھونچال آ گیا تھا جہاں وزارت خارجہ کے عہدیدار اور خود وزیر خارجہ ایس جے شنکر اس بیان پر وضاحت دے چکے ہیں تاہم حزب اختلاف کی جماعتیں بضد ہیں کہ وزیراعظم نریندر مودی پارلیمان کو اس معاملے پر اعتماد میں لیں۔

بھارت طویل عرصے سے اصرار کرتا رہا ہے کہ مسئلہ کشمیر دو طرفہ معاملہ ہے اور نئی دہلی اور اسلام آباد ہی کسی ثالثی کے بغیر اس کا حل نکال سکتے ہیں۔  

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا