’اگر دہلی بزرگ ہے تو راجستھان محبت‘: نئی دہلی کے داستان گو

زیادہ تر لوگ دہلی کو اپنی ’محبوبہ‘ کے طور پر دیکھتے ہیں، لیکن آصف خان دہلوی ان سے اختلاف کرتے ہوئے جنوں کے اس شہر کو اپنا ’بزرگ‘ کہتے ہیں، ایک ایسا بزرگ جس کے سائے میں وہ اپنی کہانیاں بُنتے ہیں۔

آصف خان دہلوی، چراغِ دہلی کے صوفی فقیروں کے زیر اثر پروان چڑھے۔ وہ ایک کہانی نویس اور داستان گو ہیں، جن کا تجربہ انہوں نے زندگی کے خاموش تجربات سے حاصل کیا اور جنہیں وہ باقی لوگوں میں منتقل کرتے ہیں۔

باقی سب کی طرح، ان کا کیریئر بھی ایک عام کارپوریٹ ملازمت سے شروع ہوا، لیکن ان کا دل لوگوں اور مقامات کے ساتھ گہرے تعلق کی خواہش رکھتا تھا۔

اسی جذبے کی بنا پر 12-2011 کے دوران آصف نے اپنی کہانیوں کو ’دہلی کارواں‘ کا نام دے کر مسافروں اور سیاحوں کو سنانا شروع کیا۔

اس کارواں کے ذریعے آصف نے لوگوں اور سیاحوں کو دہلی کے شاندار ورثے، ثقافت، لوگوں اور حکمرانوں کی زندگی کا خوبصورت سفر کروایا۔

زیادہ تر لوگ دہلی کو اپنی ’محبوبہ‘ کے طور پر دیکھتے ہیں، لیکن آصف ان سے اختلاف کرتے ہوئے اس شہر کو اپنا ’بزرگ‘ کہتے ہیں۔ ایک ایسا بزرگ جس کے سائے میں وہ اپنی کہانیاں بُنتے ہیں۔

دہلی کارواں یعنی کہانیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سفر، ان کا وژن ہے اور وہ اس کاروان کو پورے ملک تک لے جانے کا خواب دیکھتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آصف کے لیے کہانیاں ان کا جنون، مقدر اور یقینی طور پر بنی نوع انسان کی آخری امید ہیں۔ ان میں سے بہت سی کہانیاں دہلی کے بھرپور ورثے سے نکلتی ہیں۔

آصف خود دہلی کو ’کبھی نہ ختم ہونے والی کہانیوں کی لائبریری‘ کہتے ہیں۔ وہ چراغ دہلی کے صوفی فقیروں کے صوفیانہ اثر سے بہت متاثر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کے نام پر لقب ’دہلوی‘ سے مراد صوفی بزرگ ناصر الدین محمود ہیں، جو چراغِ دہلوی یعنی ’دہلی کا روشن چراغ‘ کے نام سے مشہور تھے۔

ان کا نام ان کے استاد نظام الدین اولیا نے چراغ دہلوی رکھا تھا۔ آصف کو ’دہلوی‘ کا لقب ان کے ساتھی دوستوں اور سیاحوں نے دیا تھا۔

آصف کا ماننا ہے کہ جب وہ سفر سے واپس آتے ہیں تو بدلے ہوئے اور کہانیوں سے بھرا بیگ لے کر واپس آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سفر کا مطلب محض دور دراز مقامات پر جانا نہیں بلکہ اپنی روح کی خاموشی کو سننا بھی ہے۔

ان کا سفر صرف دہلی تک محدود نہیں ہے بلکہ راجستھان اور مغربی بنگال بھی اس میں شامل ہیں۔ انہیں ڈھولا مارو کی کہانی ہیر رانجھا کی طرح عزیز ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اگر دہلی بزرگ ہے تو راجستھان محبت‘۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی