کابل میوزیم: ’طالبان کے آنے سے لوٹ مار کی روک تھام ہوئی‘

جب سے اس سرزمین میں جنگوں کا سلسلہ شروع ہوا تو کھدائی کا کام رک گیا لیکن پھر بھی 90 کی دہائی کی خانہ جنگی تک کابل میوزیم میں کئی ادوار کے لگ بھگ ایک لاکھ آثار جمع ہوگئے تھے۔

افغانستان کی تاریخ جتنی بھی پرانی ہو اس کے آثارِ قدیمہ کو دیکھ کر پانچ ہزار سال کا عرصہ بھی شاید کم ہی لگتا ہے۔

یہاں خاک اور پتھر کے ڈھیروں کے نیچے اگر ایک طرف قدرتی ذخیرے ہیں تو دوسری طرف یہ ان گنت آثار قدیمہ بھی ہیں۔

لگ بھگ 100 سال پہلے افغانستان میں آثار قدیمہ کی کھوج شروع ہوگئی تھی اور بہت کم وقت میں نہ صرف یہ کہ کئی اہم قدیمی سائٹس کا پتہ لگ گیا بلکہ کھدائی سے ہزاروں پرانے آثار قدیمہ بھی ہاتھ لگے۔

بدقسمتی سے ہمیشہ کی طرح اس سرزمین میں جنگوں کا سلسلہ شروع ہوا اور کھدائی کا کام رک گیا لیکن پھر بھی 90 کی دہائی کی خانہ جنگی تک کابل میوزیم میں کئی ادوار کے لگ بھگ ایک لاکھ آثار جمع ہوگئے تھے۔

کابل میوزیم کے نیشنل آرکائیوز کا چیف آفیسر يحییٰ محب زادہ کہتے ہیں کہ اس خانہ جنگی کےدوران جو میوزیم کے احاطے دارالامان میں زیادہ شدید تھی جس کے نتیجےمیں اس میوزیم کے 70 ہزار آثار لوٹ لیے گئے اور  میوزیم کی عمارت سمیت باقی ماندہ آثار کو توپوں اور بڑے اسلحوں کی گولہ باری کی وجہ سے بڑا نقصان پہنچا۔

چیف آفیسر يحییٰ محب زادہ نے کہا: ’ہماری اطلاعات اور کلچر کی وزارت کی کاوشوں سے افغانستان کے تقریبا 10 ہزار پرانے آثار کو دنیا کے مختلف ممالک سے لوٹایا گیا اور ابھی تک کابل میوزیم میں ہمارے زیر تکمیل ڈیٹا بیس کے مطابق پچاس ہزار تاریخی آثار موجود ہیں۔‘

یحییٰ محب زادہ نے کہا کہ میوزیم میں قبل از تاریخ سے لے کر تاریخی اور دور جدید تک کے ہرقسم کے آثار موجود ہیں جس میں مختلف جگہوں، مختلف تہذیبوں اور مختلف دوروں جیسے کہ سٹون اور برونز ایجز کے بےشمار آثار قابل ذکر ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’میں آپ کو مثال کے طور پر یہ کہنا چاہوں گا کہ ہمارے پاس ایک مجسمہ نما پتھر ہے جو تحقیقات کے مطابق 15 ہزار سال پرانا تاریخی مجسمہ ہے اور ساتھ میں یہاں ہخامنشی، یونانی، یونانی باختری، کوشانی اور بودھائی تمدن اور بالاخر اسلامی تمدن سے تعلق رکھنے والے بےشمار آثار یہاں موجود ہیں۔ جس ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہمارے آثار اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ ہر ملک کے قدیمی آثار اس ملک کے تمدن اور تاریخ  کے زرین اوراق ہوتے ہیں۔‘    

یحییٰ محب زادہ نے مزید کہا: ’امارت اسلامی کے آنے سے نہ صرف یہ کہ کوئی تنقید نہیں کی گئی بلکہ لوٹ مار کی روک تھام ہوگئی۔ ورنہ اکثر ایسی افراتفری سے کچھ برے لوگ اور گروپس فائدہ اٹھانے کی کوشش ضرور کرتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ میوزیم کے دروازے شائقین کے سامنے کھلے ہیں اوردن بہ دن ان میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور عام حالت میں جب موسم گرم ہو اور سکول اور کالجز کھلے ہوں تو روزانہ سات آٹھ سو لوگ یہاں میوزیم دیکھنےکے لیے آتے ہیں جن میں کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ بھی شامل ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا