جنرل (ر) باجوہ کے خلاف فوری تحقیقات شروع کی جائیں: عمران خان

عمران خان نے صدر عارف علوی کے نام خط میں لکھا ہے کہ پاکستانی فوج کے سابق سربراہ چار طریقوں سے آئین پاکستان کی مبینہ خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں۔

عمران خان نے خط میں لکھا ہے کہ صرف عوام ہی انتخابات کے ذریعے ہی فیصلہ کر سکتے ہیں کہ وہ کسے وزیر اعظم کے طور منتخب کرنا چاہتے ہیں (اے ایف پی)

سابق وزیر اعظم عمران خان نے جمعرات کو صدر ڈاکٹر عارف علوی سے ریٹائرڈ جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے خلاف آرمی چیف کی حیثیت سے ’اپنے عہدے کے حلف کی بار بار‘ خلاف ورزی کرنے پر ’فوری انکوائری‘ کروانے کا کہا ہے۔
عمران خان نے 14 فروری کو صدر عارف علوی کو ایک خط تحریر کیا، جس میں انہوں نے مقوف اختیار کیا کہ پاکستانی فوج کے سابق سربراہ چار طریقوں سے آئین پاکستان کی مبینہ خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے۔
اس سلسلے میں انہوں نے صحافی جاوید چوہدری کے کالم میں شائع ہونے والے جنرل باجوہ کے مبینہ ریمارکس کو بھی اپنے دعوے کے ثبوت کے طور پر پیش کیا۔
پاکستان تحریک انصاف کی رہنما ڈاکٹر شیریں مزاری نے بھی اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر پارٹی سربراہ کے اس اقدام کا اعلان کرتے ہوئے مذکورہ خط کی تصاویر شیئر کیں۔

صحافی جاوید چوہدری کے کالم کا حوالہ دیتے ہوئے عمران خان نے خط میں لکھا کہ جنرل باجوہ نے ’صحافی جاوید چوہدری کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ اگر وہ (عمران خان) اقتدار میں رہتے ہیں تو ہم انہیں ملک کے لیے خطرناک سمجھتے ہیں۔‘

خط میں نے مزید کہا گیا کہ یہ معلوم کرنا بہت اہم ہو گا کہ جنرل باوجہ کی ’ہم‘ سے کیا مراد ہے۔ 
سابق وزیر اعظم نے سوال اٹھایا: ’انہیں (جنرل باجوہ) کو یہ فیصلہ کرنے کا اختیار کس نے دیا کہ ایک منتخب وزیر اعظم (عمران) ممکنہ طور پر ’اگر اقتدار میں رہے تو ملک کے لیے خطرہ‘ ہے؟‘ 
پی ٹی آئی کے سربراہ کا کہنا تھا کہ عوام صرف انتخابات کے ذریعے ہی فیصلہ کر سکتے ہیں کہ وہ کسے وزیر اعظم کے طور منتخب کرنا چاہتے ہیں۔ ’خود یہ حق لے لینا  حلف کی صریحاً خلاف ورزی ہے، جیسا کہ آئین کے تھرڈ شیڈول آرٹیکل 244 میں دیا گیا ہے۔‘
عمران خان نے جنرل باجوہ کے اس مبینہ اعتراف کا ذکر کیا کہ وہ ’شوکت ترین کے خلاف نیب کا مقدمہ خارج کرانے میں کامیاب ہوئے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ اس سے یہ انکشاف ہوا کہ نیب سابق آرمی چیف کے ’کنٹرول‘ میں تھا، جو’ایک بار پھر آئینی حلف کی صریحاً خلاف ورزی ہے، کیونکہ فوج بذات خود وزارت دفاع کا ایک ماتحت محکمہ ہے اور سویلین سرکاری خود مختار اداروں (نیب) کو کنٹرول نہیں کر سکتی۔
عمران خان نے اپنے خط میں لکھا کہ جنرل (ر) باجوہ نے ایک اور صحافی آفتاب اقبال سے گفتگو میں اعتراف کیا کہ ان کے پاس وزیراعظم عمران خان کے ساتھ اپنی گفتگو کی ریکارڈنگز موجود ہیں۔
’صحافی آفتاب اقبال نے یہ تمام تفصیلات اپنے وی لاگ کے ذریعے قوم کے سامنے رکھی ہیں۔‘

انہوں نے لکھا کہ جنرل (ر) باجوہ کی جانب سے وزیراعظم سے کی جانے والی گفتگو کی ریکارڈنگز آرمی چیف کے حلف اور بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے ۔
’اس سوال کا جواب اہم ہے کہ جنرل (ر) باجوہ کیوں اور کس حیثیت و اختیار سے خفیہ بات چیت ریکارڈ کیا کرتے تھے۔‘
صدر عارف علوی کو لکھے گئے خط میں عمران خان نے مؤقف اختیار کیا کہ روس، یوکرین جنگ پر حکومت کی غیر جانبدارانہ پالیسی کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے جنرل (ر) باجوہ نے اپنے حلف کے تقاضوں کو بھی پامال کیا۔
عمران خان نے مزید کہا: ’جنرل باجوہ نے 2 اپریل 2022 کو اسلام آباد سکیورٹی کانفرنس میں روس یوکرین جنگ پر حکومتِ پاکستان کی پالیسی سے یکسر متضاد موقف اختیار کیا۔‘
انہوں نے واضح کیا: ’میں نشاندہی کر دوں کہ اس معاملے پر حکومتِ پاکستان کی پالیسی کو وزارت خارجہ اور متعلقہ ماہرین سمیت تمام فریقین کے مابین مکمل اتفاق رائے سے مرتب کیا گیا تھا۔‘
خط کے اختتام پر عمران خان نے لکھا کہ آئین کا چیپٹر دوئم اور خاص طور پر آرٹیکل 243، 244 افواج پاکستان کے دائرہ اختیار کی وضاحت کرتے ہیں۔
انہوں نے صدر عارف علوی کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا: ’صدر مملکت اور افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر ہونے کے ناطے آپ کی آئینی ذمہ داری ہے کہ آپ معاملے کا فوری نوٹس لیں اور انکوائری کریں۔‘
سابق وزیر اعظم نے خط میں نے آئین کے تحت آرمی چیف کے حلف کی ایسی سنگین خلاف ورزیاں کیا جانا معلوم کرنے کی خاطر تحقیقات کی استدعا کی۔
عمران خان کی جانب سے صدر کو خط کا لکھا جانا سابق وزیراعظم اور جنرل (ر) باجوہ کے درمیان طویل عرصے سے جاری کشمکش میں تازہ ترین پیش رفت کے طور پر سامنے آئی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے اقتدارِ حکومت کے دوران ’ایک صفحے‘ پر ہونے کا دعویٰ کرنے والے سابق وزیراعظم اور سابق آرمی چیف کے تعلقات میں دراڑیں گزشتہ سال اپریل میں عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد سامنے آئی تھیں۔

خط کا پس منظر
معروف پاکستانی کالم نگار اور صحافی جاوید چوہدری نے نو فروری کو اردو اخبار روزنامہ ایکسپریس میں ’عمران خان کی جنرل باجوہ سے دو ملاقاتیں‘ کے عنوان سے لکھے گئے کالم میں سابق وزیر اعظم کی سابق آرمی چیف سے ہونے والی دو ملاقاتوں کے تذکرے کے ساتھ ساتھ چند اہم انکشافات اور دعوے بھی کیے تھے۔
کالم کے مطابق عمران خان کی جنرل باجوہ سے پہلی ملاقات 22 اگست کو ہوئی جو بری طرح ناکام رہی، جبکہ دوسری ملاقات ستمبر میں ہوئی اور صدر مملکت کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود یہ ملاقات بھی ناکامی سے دوچار ہوئی۔
کالم میں دعویٰ کیا گیا کہ جنرل باجوہ نے انہیں (کالم نگار کو) بتایا تھا کہ انہوں نے عمران خان کو اسمبلی سے مستعفی ہونے سے روکا تھا اور ان سے کہا تھا کہ ’آپ اسمبلی میں رہیں، آپ کو دوسرا موقع مل جائے گا‘ لیکن عمران خان نے میرا میسج پڑھ کر جواب نہیں دیا اور یوں ان سے رابطہ ختم ہوگیا۔
کالم کے مطابق: ’جنرل باجوہ نے کہا کہ ہم نے عمران خان کی حکومت نہیں گرائی بلکہ ہمارا جرم صرف یہ تھا کہ ہم نے ان کی حکومت بچائی کیوں نہیں، میں اگر اپنا فائدہ دیکھتا تو یہ میرے لیے سب سے سوٹ ایبل تھا لیکن میں نے ملک کے لیے اپنے امیج کی قربانی دی اور مشکل لیکن درست فیصلہ کیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے عمران خان کو شوکت ترین کو وزیر خزانہ بنانے سے بھی روکا لیکن وہ نہیں مانے اور الٹا ہم سے کہہ دیا کہ ان کے خلاف کیسز ختم کروائیں اور یوں جنرل فیض حمید نے شوکت ترین کے نیب سے کیسز ختم کرائے۔
اسی طرح سینیئر اینکر آفتاب اقبال نے اپنے ایک وی لاگ میں انکشاف کیا تھا کہ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے انہیں خود بتایا کہ انہوں نے عمران خان کی وہ ویڈیوز بنا رکھی ہیں جن میں وہ نواز شریف کے خلاف کارروائیوں پر تعریفیں کیا کرتے تھے اور مزید کارروائیوں کا مطالبہ کرتے تھے۔

تاہم اب یہ وی لاگ ہٹا لیا گیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان