ٹیکس ’سروے‘ کے بی بی سی انڈیا کے لیے کیا معنی ہیں؟

بی بی سی کے دفاتر پر یہ چھاپے نشریاتی ادارے کی جانب سے ’انڈیا: دا مودی کویسچن‘ نامی دستاویزی سیریز نشر کیے جانے کے چند ہفتے بعد سامنے آئے ہیں۔

14 فروری 2023 کو لی گئی اس فائل تصویر میں میڈیا کے ارکان بی بی سی انڈیا کے دفتر کی عمارت کے باہر سے رپورٹ کر رہے ہیں جہاں بھارتی ٹیکس حکام نے ممبئی میں چھاپہ مارا تھا (اے ایف پی)

انڈیا میں ٹیکس حکام نے جمعرات کو مسلسل تیسرے روز بھی ملک میں بی بی سی کے دفاتر کی تلاشی جاری رکھی۔

انڈیا کی مرکزی حکومت کے عہدے داروں کا کہنا ہے کہ وہ ٹیکس چوری کے الزامات کے سلسلے میں درالحکومت نئی دہلی اور ممبئی میں برطانوی نشریاتی ادارے کے بزنس آپریشنز کی تحقیقات کر رہے ہیں۔

مقامی انگریزی اخبار دی انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق یہ تلاشیاں، جسے انڈیا کے ٹیکس حکام ’سروے‘ کا نام دے رہے ہیں، ٹرانسفر پرائسنگ قوانین کی ’جان بوجھ کر عدم تعمیل‘ اور بی بی سی کے مبینہ ’منافع کی وسیع ہیر پھیر‘ کی تحقیقات کا حصہ تھیں۔

ٹرانسفر پرائسنگ سے مراد ایک تنظیم کے مختلف اداروں کے درمیان لین دین کی مالیت ہے۔

سرکاری خبر رساں ادارے پریس ٹرسٹ آف انڈیا نے نام لیے بغیر عہدے داروں کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا کہ تفتیش کاروں نے بی بی سی کے منتخب عملے سے مالیاتی ڈیٹا اکٹھا کیا اور برطانوی نشریاتی ادارے کے احاطے سے الیکٹرانک اور کاغذی ڈیٹا کی کاپیاں بنائیں۔

تاہم انسانی حقوق کے گروپوں اور حزب اختلاف کی جماعتوں نے کچھ عرصے سے حکومت پر الزام لگایا ہے کہ وہ اس طرح کے ’سروے‘ کو این جی اوز اور میڈیا تنظیموں سمیت اپنے ناقدین کو ہراساں کرنے اور دھمکانے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔

بی بی سی کے دفاتر پر یہ چھاپے نشریاتی ادارے کی جانب سے ’انڈیا: دا مودی کویسچن‘ نامی دستاویزی سیریز نشر کیے جانے کے چند ہفتے بعد سامنے آئے ہیں۔

یہ ایک دستاویزی سیریز ہے جس میں ہندو قوم پرست وزیر اعظم نریندر مودی اور 2002 میں ہونے والے مسلم کش گجرات فسادات میں ان کے کردار پر تنقید کی گئی تھی جب وہ ریاست کے وزیر اعلیٰ تھے۔

یہ دستاویزی فلم صرف برطانیہ میں نشر کی گئی۔ انڈیا کی حکومت نے اس سیریز کو ’پراپیگنڈہ‘ کا نام دیا اور ملک میں اس کی سکریننگ کو روکنے کا حکم صادر کیا۔ ساتھ ہی سوشل میڈیا کمپنیوں کو ہنگامی اختیارات کے ذریعے اس سیریز کے کلپس تک کو ہٹانے کا حکم دیا۔

ٹیکس ’سروے‘ ہے کیا؟

اگر کوئی بھی ادارہ اپنی آمدنی یا اثاثے ظاہر نہ کرنے کا انتخاب کرتا ہے تو انڈیا کے ٹیکس محکمے کو اس ادارے کی ’تلاشی‘ لینے یا ’سروے‘ کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ یہ دو مختلف اصطلاحات ہیں جن میں مختلف اختیارات شامل ہیں۔

ایسی سرگرمیوں کو اکثر عام طور پر محکمہ ٹیکس کے ’چھاپے‘ کے طور پر بیان کیا جاتا ہے حالانکہ ملک کے انکم ٹیکس ایکٹ میں اس اصطلاح کا کہیں ذکر نہیں ہے۔

ٹیکس قوانین کے مطابق ’سروے‘ ٹیکس حکام کی جانب سے جائزہ لینے کی ایک کم جارحانہ شکل ہے۔

نیوز پورٹل ’دی وائر‘ پر ٹیکس ’سروے‘ کے سیاق و سباق کے بارے میں لکھنے والے ایڈوکیٹ دیپک جوشی کے مطابق ایک سروے کم جارحانہ یا دخل اندازی کی قسم ہے اور اس میں افسران کو محدود اختیارات دیے گئے ہیں۔

عام طور پر سروے ایسے ٹیکس دہندگان کی شناخت کے لیے کیے جاتے ہیں جنہوں نے قابل ٹیکس آمدنی ہونے کے باوجود انکم ٹیکس گوشوارے درست طریقے سے داخل نہیں کیے۔

یہ سروے اچانک دورے اور معائنے کی شکل میں ہو سکتے ہیں اور ٹیکس حکام کیس سے متعلقہ معلومات اکٹھا کر سکتے ہیں۔

ٹیکس سروے ’تلاشی‘ سے کیسے مختلف ہے؟

تلاشی کی صورت میں ٹیکس حکام کے پاس کسی مشتبہ شخص یا کمپنی کے خلاف ٹھوس ثبوت یا تصدیق شدہ معلومات ہوتی ہیں۔

دیپک جوشی نے بتایا کہ تلاشی کے دوران ’زیادہ سخت اختیارات‘ استعمال کیے جاتے ہیں۔ ٹیکس اہلکار ایسے معاملات میں کسی بھی دستاویز، اثاثے یا مواد کی ’تلاش‘، ’زبردستی گھسنے‘ اور ان کو ’قبضے‘ میں لے سکتے ہیں۔

کیا ٹیکس ایجنٹ سروے کے دوران فون ضبط کر سکتے ہیں؟

ایسی رپورٹس موجود ہیں کہ ٹیکس حکام نے ’سروے‘ کے دوران بی بی سی کے کچھ صحافیوں کے فون اور لیپ ٹاپ ضبط کر لیے ہیں۔ منگل کو چھاپے کے پہلے دن ادارے کے ملازمین کو دفتر کے احاطے سے نکلنے سے بھی روک دیا گیا تھا۔

انکم ٹیکس قوانین کے مطابق سروے کے دوران اکاؤنٹس اور دستاویزات کی صرف بُکس ہی ضبط کی جا سکتی ہیں اور وہ بھی اس صورت میں جب اس حوالے سے کافی ثبوت موجود ہوں۔

قانون کے مطابق سروے کے دوران لیپ ٹاپ اور موبائل فون ضبط نہیں کیے جا سکتے۔ لیکن قانون کے مطابق لیپ ٹاپ اور کسی بھی ڈیجیٹل ڈیوائس سے ڈیٹا کی کاپی لی جا سکتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ لیپ ٹاپ اور موبائل فونز کو ضبط کرنا قانون کی خلاف ورزی ہے۔

ٹیکس حکام صرف موبائل فون یا لیپ ٹاپ یا کسی دوسرے ڈیجیٹل ڈیوائسز پر صرف ’تلاشی‘ کے دوران ہی ’قبضہ‘ کر سکتے ہیں نہ کہ سروے کے دوران۔

انڈین حکام کس طرح ناقدین کو سزا دینے کے اس قانون کا ’غلط استعمال‘ کرتے ہیں

مودی انتظامیہ کے ناقدین کے لیے بی بی سی انڈیا کے دفاتر کو نشانہ بنانا کوئی حیران کن بات نہیں ہے۔

انہوں نے ٹیکس کی آڑ میں اس تلاشی کے وقت پر سوال اٹھائے ہیں اور اس اقدام کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ حکومت اکثر انہیں خاموش کرانے یا ناقدین کو پیغام بھیجنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔

2021  میں بھی مرکزی حکومت نے ’نیوز کلک‘ اور ’نیوز لانڈری‘ جیسے آزاد آن لائن خبر رساں اداروں کے دفاتر کی تلاشی لی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مقامی زبان کے روزنامہ ڈینک بھاسکر 2021 میں اس وقت حکومت کے زیر عتاب آیا جب اشاعتی ادارے نے حکومت کی کویڈ وبا سے نمٹنے میں ناکامی پر چند سخت رپورٹیں شائع کیں اور بڑے پیمانے پر آخری رسومات اور تیرتی لاشوں کی رپورٹیں شائع کیں۔

لبرل چینل سمجھے جانے والے نشریاتی ادارے این ڈی ٹی وی کو بھی 2017 میں اسی طرح نشانہ بنایا گیا تھا۔ حکومت نے کہا کہ وہ چینل کے خلاف قرضوں کے نادہندگان کے معاملات کی تحقیقات کر رہی ہے۔

ناقدین کی ’تلاشی‘ نہیں ’سروے‘ کے بارے میں رائے

منگل کو ایک پریس کانفرنس میں مودی کی حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے بی بی سی پر چھاپوں کا دفاع کیا اور کہا کہ ٹیکس حکام کو اپنا کام کرنے دیا جانا چاہیے۔

بی جے پی کے ترجمان گورو بھاٹیہ نے الزام لگایا کہ بی بی سی انڈیا مخالف پراپیگنڈے میں ملوث ہے۔

ادھر ہیومن رائٹس واچ کی جنوبی ایشیا کی ڈائریکٹر میناکشی گنگولی نے جی 20 گروپ کے رہنماؤں سے کہا کہ وہ مودی حکومت پر اظہار رائے کی آزادی کے احترام کے لیے زور دیں۔

میناکشی گنگولی نے کہا: ’افسران نے کہا ہے کہ وہ ٹیکس چوری کے الزامات کی تحقیقات کے لیے ’سروے‘ کر رہے ہیں نہ کہ ’تلاشی۔‘ تاہم انہوں نے چھاپے کی مدت بڑھانے کے لیے دفاتر کو سیل کر دیا اور مبینہ طور پر کئی صحافیوں کے دستاویزات اور فون ضبط کر لیے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’مودی نے جی 20 سربراہی اجلاس کو دنیا کے لیے انڈیا کو جاننے کا ایک موقع قرار دیا ہے جسے وہ ’جمہوریت کی ماں اور متنوع اور بہادر‘ معاشرہ کہتے ہیں۔ لیکن جب حکومت کے اقدامات کے خلاف بولا جاتا ہے تو یہ الفاظ کھوکھلے ہو جاتے ہیں۔ جی 20 کے ارکان سمیت عالمی رہنما انڈیا پر انسانی حقوق سے متعلق بین الاقوامی اجلاسوں میں اپنے وعدوں کو پورا کرنے کے لیے دباؤ ڈالیں جس میں لوگوں کے پرامن اختلاف رائے کے حق کا تحفظ بھی شامل ہے۔‘

صحافتی تنظیم ’ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا‘ نے اس حکمت عملی کو حکومتی پالیسیوں یا حکمران اسٹیبلشمنٹ کی تنقید کرنے والے پریس اداروں کو ڈرانے اور ہراساں کرنے کے لیے سرکاری ایجنسیوں کے استعمال کے رجحان کا تسلسل بھی قرار دیا۔

اپوزیشن پارٹی کے ارکان نے بھی انتقامی کارروائی پر حکومت پر تنقید کی ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی اس ’سروے‘ کو آزادئ اظہار کی توہین قرار دیا۔

عالمی تنظیم نے ایک بیان میں کہا: ’یہ چھاپے اظہار رائے کی آزادی کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہیں۔ انڈین حکام واضح طور پر حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی پر تنقیدی کوریج کے خلاف بی بی سی کو ہراساں کرنے اور ڈرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

بیان میں مزید کہا گیا: ’اختلاف رائے کو خاموش کرنے کے لیے انکم ٹیکس محکمے کے وسیع اختیارات کو بار بار ہتھیار بنایا جا رہا ہے۔ پچھلے سال ٹیکس حکام نے آکسفیم انڈیا سمیت متعدد این جی اوز کے دفاتر پر بھی اسی طرح کے چھاپے مارے تھے۔ انڈیا میں آزادئ اظہار کے حق کو مجروح کرنے والی یہ دھمکی آمیز کارروائیاں اب ختم ہونی چاہئیں۔‘

نام نہاد سروے کا کوئی واضح نقطہ نظر نہ ہونے کے بعد بدھ سے بی بی سی انڈیا کے تمام ملازمین کو ہدایت کی گئی کہ وہ اگلے نوٹس تک گھر سے کام کریں جب کہ براڈ کاسٹ ٹی وی آپریشن کے لیے ضروری ملازمین ہی دفاتر آئیں گے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا