مودی مخالف ڈاکومینٹری پا پابندی: سپریم کورٹ کا حکومت کو نوٹس

انڈیا کی سپریم کورٹ نے وزیراعظم نریندر مودی پر بننے والی بی بی سی کی دستاویزی فلم پر پابندی لگانے کی وجہ سے حکومت کو نوٹس جاری کر دیا ہے۔

24 جنوری کو کوچی میں ضلعی کانگریس کمیٹی کی ہدایت پر میرین ڈرائیو جنکشن پر نصب اسکرین پر بی بی سی کی دستاویزی فلم ’انڈیا: دی مودی کویسچن‘ دکھائی گئی (اے ایف پی)

انڈیا کی سپریم کورٹ نے 2002 کے گجرات فسادات اور موجودہ وزیراعظم نریندر مودی کے کردار پر بی بی سی کی دستاویزی فلم کو بلاک کرنے والی وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کر دیا ہے۔

17 جنوری کو نشر ہونے والی دستاویزی فلم ’انڈیا: دی مودی کوئسچن‘ میں دعویٰ کیا گیا کہ مغربی ریاست کے وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے مودی وہاں فسادات کے ’براہ راست ذمہ دار‘ تھے۔

فلم کی ریلیز کے فوری بعد وفاقی حکومت نے انفارمیشن اینڈ ٹیکنالوجی کے قانون کے تحت ہنگامی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے سوشل میڈیا سے کلپس ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔

جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس ایم ایم سندریش پر مشتمل سپریم کورٹ کے بینچ نے پابندی کو چیلنج کرنے والی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے وفاقی حکومت کو اپریل میں ہونے والی سماعت میں ٹیک ڈاؤن آرڈر کے متعلق اصل ریکارڈ پیش کرنے کی ہدایت کی۔

عدالت نے صحافی این رام، وکیل پرشانت بھوشن اور حزب اختلاف کی ترنمول کانگریس پارٹی کی رکن پارلیمنٹ مہوا موئترا کی طرف سے مشترکہ اور وکیل ایم ایل شرما کی درخوستوں پر سماعت کی۔

عدالت نے جمعہ کو پوچھا کہ درخواست گزار اس معاملے کو پہلے ہائی کورٹ میں کیوں نہیں لے گئے۔

درخواست گزاروں کے ایک وکیل چندر اُودے سنگھ نے کہا کہ وفاقی حکومت پہلے ہی آئی ٹی رولز کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کو اپنے پاس منتقل کر چکی ہے۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ بمبئی اور مدراس ہائی کورٹ پہلے ہی آئی ٹی رولز کی کچھ دفعات پر پابندی لگا چکی ہیں اور بینچ کو یہ بھی بتایا کہ بلاکنگ آرڈر اسی قواعد کے تحت جاری کیا گیا ہے۔

حکومت نے گذشتہ ماہ یوٹیوب اور ٹوئٹر دونوں کو حکم جاری کیا تھا کہ وہ بی بی سی کی دو حصوں پر مشتمل دستاویزی فلم سے متعلق مواد کو بلاک کریں۔

وکیل چندر اُودے سنگھ نے فلم دکھانے کی کوشش کرنے والے یونیورسٹی کے طلبا پر کارروائی کا حوالہ دیتے ہوئے عدالت سے عبوری ریلیف کا بھی استدعا کی۔

انڈیا کی کئی یونیورسٹیوں میں طلبا کی جانب سے مذکورہ فلم دکھانے کی کوششوں پر کشیدگی دیکھنے میں آئی۔ 

گذشتہ ہفتے دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں فلم دکھائے جانے کے دوران پتھراؤ کیا گیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی کی انتظامیہ کی جانب سے کیمپس میں فلم دکھانے کی اجازت دینے سے انکار کے بعد پولیس نے ایک درجن سے زیادہ طلبہ کو حراست میں لیا اور کلاسز معطل کر دی گئیں تھیں۔

بی جے پی رہنماؤں کی وارننگ کے باوجود یہ دستاویزی فلم مبینہ طور پر حیدرآباد یونیورسٹی اور کمیونسٹ حکمرانی والی جنوبی ریاست کیرالہ کے کئی کیمپسوں میں بھی دکھائی گئی۔

تاہم عدالت نے اس کارروائی پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا اور اسے ایک ’الگ مسئلہ‘ قرار دیا۔

جسٹس سنجیو کھنہ نے کہا: ’یہ ایک الگ مسئلہ ہے... ہم قانونی پہلو پر زیادہ غور کر رہے ہیں۔‘

قبل ازیں وفاقی حکومت نے اس دستاویزی فلم کو ’پروپیگنڈا پیس‘ قرار دیا تھا جو ’نوآبادیاتی ذہنیت‘ کو ظاہر کرتا ہے۔

بی بی سی نے اپنی اس پروڈکشن کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اس نے اعلیٰ ترین معیارات کا لحاظ رکھا گیا ہے۔

اس دستاویزی فلم میں ملک کی سب سے بڑی اقلیت مسلمانوں کے ساتھ وزیراعظم کے تعلقات کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے۔

پہلے حصے میں اس دستاویزی فلم نے نریندر مودی کو 2002 کے مذہبی فسادات کے لیے ’براہ راست ذمہ دار‘ ٹھہرایا ہے جن میں ان کی ریاست کے اندر ایک ہزار سے زیادہ افراد – جن میں زیادہ تر مسلمان تھے – ہلاک ہوئے۔

گذشتہ برس بھارتی سپریم کورٹ نے خصوصی تحقیقاتی ٹیم (ایس آئی ٹی) کی رپورٹ کو چیلنج کرنے والی ایک درخواست خارج کرتے ہوئے نریندر مودی کو کلین چٹ دی اور انہیں 62 دیگر سینئر سرکاری عہدیداروں سمیت بری کر دیا گیا تھا۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا